تصوّف اور صوفی ازم
چند سال پہلے امریکاکے ایک سفر میں مجھے ایک صوفی سنٹر کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ نیویارک کے آؤٹ اسکرٹ میں واقع تھا۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کے اندر دیوار پر ایک مسلم صوفی کی بڑی تصویر لگی ہوئی ہے اور ریکارڈنگ کے ذریعے کچھ صوفی گیت نشر ہورہے ہیں۔ یہ گیت تامل زبان میں تھے۔ لیکن وہ اتنی پُر سوز اور سریلی آواز میں تھے کہ وزٹر تامل زبان کو نہ جانتے ہوئے بھی محو ہوکر اس کو سننے لگتا تھا۔
معلوم ہوا کہ امریکا کے کچھ سفید فام سیّاح سری لنکا گیے۔ وہاں سیاحت کے دوران انھوں نے ایک جنگل میں دیکھا کہ ایک نابینا صوفی تامل زبان میں روحانی گیت گار ہا ہے۔ یہ امریکی سیّاح اگر چہ تامل زبان نہیں جانتے تھے مگر گانے والے کے پُر سوز لہجے نے ان کو متاثر کیا۔ وہ اس نابینا صوفی کو اپنے ساتھ امریکا لے آئے، اور صوفی سنٹر قائم کرکے اس کو یہاں رکھا۔ یہ سنٹر اب مستقل طورپر صوفیانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سری لنکا کے یہ صوفی اگر چہ اب مرچکے ہیں لیکن یہاں کے سنٹر میں دیوار پر لگی ہوئی مذکورہ مسلم صوفی کی بڑی تصویر آنے والوں کو اب بھی شدت کے ساتھ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ ان کے ریکارڈ کیے ہوئے پُر اثر گیت یہاں کی فضا میں ہرروز گونجتے رہتے ہیں۔
اس طرح کے تجربات مجھے اپنے بیرونی سفروں میں بار بار پیش آئے ہیں۔ اس سے میں نے اندازہ کیا ہے کہ صوفی ازم کے اندر ایک عالمی اپیل ہے۔ وہ ہر جگہ اور ہر زمانے کے لوگوں کو گہرائی کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔ صوفی ازم یا صوفی کلچر انسان کی گہری نفسیات کو چھوتا ہے۔ یہی وجہ ہے جس نے صوفی کلچر کو ایک عالمی حیثیت دے دی۔
صوفی ازم کی ابتدا اسلام کے ظہور کے سو سال بعد، دَور اقتدار میں ہوئی۔ اس وقت لوگ بڑی تعداد میں سیاسی اور مادّی چیزوں میں مشغول ہوگیے تھے۔ ان حالات میں مسلم صوفیوں نے یہ کوشش کی کہ لوگوں کے اندر روحانی اور انسانی قدروں کو جگایا جائے۔ چنانچہ انھوں نے یہ کیا کہ سیاسی دائرے سے باہر اپنی خانقاہیں بنائیں اور ان میں ذکر اور مراقبے وغیرہ کے ذریعے لوگوں کے اندر روحانیت کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔
صوفی ازم کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی ازم آٹھویں صدی عیسوی میں اُس وقت پیدا ہوا جب کہ مسلمانوں کو زمین کے بڑے حصے پر اقتدار حاصل ہوگیا۔ اور لوگ بڑی تعداد میں سیاسی اور مادّی چیزوں میں مشغول ہوگیے۔ اس وقت مسلم صوفیوں نے سیاست سے الگ رہ کر یہ کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے اندر از سرِ نو روحانی بیداری لائیں اور انسانی قدروں کو لوگوں کے اندر پھیلائیں۔
ابتدائی دور کے صوفیوں میں سب سے زیادہ مشہور نام حسن البصری (۷۲۸۔۶۴۲) کا ہے۔ اُس زمانے میں صوفی ازم ایک سادہ ڈسپلن کا نام تھا۔ یہ لوگ صرف یہ کرتے تھے کہ سیاسی اور مادّی سرگرمیوں کے مقابلے میں عبادت اور ذکر جیسی چیزوں کی اہمیت بتاتے تھے۔ وہ لوگوں کو دنیا کی جنت کے مقابلے میں آخرت کی جنت کی طرف متوجہ کرتے تھے۔ وہ کوشش کرتے تھے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت الٰہی میں مشغول رہیں۔
دھیرے دھیرے صوفی ازم میں دوسرے طریقے شامل ہونے لگے۔ یہ نیے طریقے، مسلم صوفیوں نے ایران کی قدیم روایات سے لیے۔ جیسا کہ معلوم ہے، اسلام سے پہلے ایران میں مراقبے کے کچھ طریقے رائج تھے۔ مگر اس زمانے میں صوفی ازم کو ایک باقاعدہ منظم قسم کے ادارے کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
اس کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں (۱۵۵۶۔۱۵۰۸)کے زمانے میں ایران کے علماء اور صوفیاء بڑی تعداد میں، غیر منقسم ہندستان میں داخل ہوئے۔ یہاں انھوں نے جگہ جگہ خانقاہیں قائم کیں۔ اس طرح اُن کا اختلاط ہندستان کے ہندو جوگیوں اور گروؤں سے ہوا۔ اس اختلاط کے دَوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ہندو پیشوا مسلم صوفیوں سے متاثر ہوئے اور مسلم صوفی ہندو پیشوا سے متاثر ہوئے۔
اس اختلاط کے دَوران صوفی ازم کا ایک نیا اڈیشن تیار ہوا۔ اس اڈیشن میں کئی ایسی چیزیں مسلم صوفی ازم میں شامل ہوگئیں جو ہندوؤں کے یہاں عرصے سے رائج تھیں، مگر وہ مسلم صوفی ازم میں پہلے نہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً ہندوؤں کے بھجن کی جگہ قوّالی وغیرہ۔
صوفی ازم ہمیشہ سے روحانی اور اخلاقی قدروں پر زور دیتا رہا ہے۔ مثلاً انسانوں سے محبت، یا انسانوں کے درمیان پُر امن طورپر رہنا، جس کو صوفی لوگ اپنے الفاظ میں صلح کُل (peace with all) سے تعبیر کرتے تھے۔ ایک صوفی شاعر نے اپنے ایک فارسی شعر میں صوفی مذہب کو اس طرح بیان کیا:
ما قصۂ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس:
We don’t know the stories of kings and generals. We know only the stories of love and compassion.
قرآن میں روحانیت کے لیے ربّانیت کا لفظ آیا ہے (آل عمران: ۷۹)۔ دوسری جگہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے (الرعد: ۲۹)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک آدمی خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے تو یہ معرفت اس کے لیے برتر سچائی کے حصول کے ہم معنی بن جاتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔ وہ محدود دنیا سے نکل کر لامحدود دنیا میں جینے لگتا ہے۔ وہ نفسیاتی طورپر ایک ایسے عالم میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ابدی سکون کا تجربہ کر سکے۔ اسلامی تصوف کا مقصد انسان کو اسی برتر دنیا میں پہنچانا ہے۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر (۱۲۶۵۔۱۱۷۵)ہندستان کے مشہور صوفی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار کسی شہر سے ان کا ایک مرید ان سے ملنے کے لیے آیا۔ وہ اپنے ساتھ تحفے کے طور پر قینچی لایا تھا۔ اس کے شہر میں قینچی بنتی تھی۔ اس لیے اس نے شیخ کے لیے قینچی کا انتخاب کیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب میں شیخ کے سامنے اپنے شہر کا یہ خصوصی تحفہ پیش کروں گا تو وہ خوش ہو ں گے اور مجھے دعائیں دیں گے۔ مگر جب اس نے شیخ کے سامنے قینچی پیش کی تو انھوں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو ہمارے کام کی چیز نہیں۔ ہمارا کام کاٹنا نہیں، ہمارا کام تو جوڑنا ہے۔ اور یہ کام قینچی کے ذریعے نہیں ہوتا۔ تم کو اگر تحفہ لانا تھا تو ہمارے لیے سوئی لے آتے۔ کیوں کہ سوئی سینے اور جوڑنے کی چیز ہے۔ اور قینچی کاٹنے اور پھاڑنے کی چیز۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر کے خلیفہ خواجہ نظام الدین اولیا ء (۱۳۲۵۔۱۲۳۸)تھے۔ وہ دہلی سلطنت کے زمانے کے مشہور صوفی تھے۔ ان کی کتاب ’’فوائد الفوائد‘‘ بہت زیادہ مشہور ہے اور تصوف کے لٹریچر میں اس کی حیثیت مرجع کی سمجھی جاتی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا کہ عام لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ سیدھے کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھے کے ساتھ ٹیڑھا۔ لیکن ہمارے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ سیدھوں کے ساتھ سیدھا اور ٹیڑھوں کے ساتھ بھی سیدھا۔ اگرکوئی شخص ہمارے سامنے کانٹا ڈالے اور ہم بھی کانٹا ڈالیں تو کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے۔ اگر کسی نے کانٹا ڈالا ہے تو تم اس کے سامنے پھول ڈالو۔ پھر پھول ہی پھول ہوجائیں گے۔
بیسویں صدی کے نصف آخر میں صوفی ازم کو ایک نئی اہمیت حاصل ہوگئی۔ صنعتی تہذیب کے ذریعے اس زمانے میں بڑے پیمانے پر مادّی ترقیاں ہوئیں، مگر اس کے ساتھ صنعتی کلچر ایک پرابلم بھی لے آیا۔ یہ پرابلم وہی ہے جس کو ٹنشن یا اسٹریس کہاجاتا ہے۔ صنعتی تہذیب نے انسان کی دوڑ دھوپ کا دائرہ بہت زیادہ بڑھا دیا۔ ٹنشن یا اسٹریس اسی کا نتیجہ ہے۔
قدیم زرعی دَور میں زندگی کا دائرہ بہت محدود تھا۔ انسان جسمانی اعتبار سے محدود صلاحیت کا مالک ہے۔ زرعی دور میں انسان کی دوڑ دھوپ بھی محدود دائرے میں ہوتی تھی، اس لیے دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا تھا۔ گویا کہ اس زمانے میں انسانی صلاحیت بھی محدود تھی اور خارجی دنیا میں اس کے مواقع عمل بھی محدود تھے۔ اس لیے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی پر مطمئن رہتے تھے۔ وہ ٹنشن اور اسٹریس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔
مگر جدید صنعتی دو رمیں مواقعِ کار بہت زیادہ بڑھ گیے ہیں۔ انسان اب بھی محدود پیدا ہورہا تھا مگر اس کو غیر محدود مواقع میں اپنا رول ادا کرنا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے موجودہ زمانے میں ذہنی تناؤ یا اسٹریس کے مسائل پیدا کیے ہیں۔ پہلے زمانے کا انسان ہر چیز کو اپنے دائرۂ اختیار کے اندر سمجھتا تھا۔ اب گلوبل ولیج اور ورلڈ کلچر کے نتیجے میں ایسا ہوا کہ انسان بار بار یہ محسوس کرنے لگا کہ حالات کا دائرہ اتنا زیادہ وسیع ہوچکا ہے کہ اس کو اپنے کنٹرول میں رکھنا اس کے لیے ممکن نہیں۔
اس صورت حال نے موجودہ زمانے میں ایک نیا پروفیشن پیدا کیا ہے، جس کو ڈی اسٹریسنگ کہا جاتا ہے۔ یعنی ٹنشن یا اسٹریس والی سوچ کو مخصوص تکنیک کے ذریعے دبانا اور کم ازکم وقتی طورپر انسانی ذہن کو ٹنشن فری بنانا۔ اس معاملے میں ہندو میڈیٹیشن کا طریقہ جدید دنیا میں کافی مقبول ہوا ہے۔ چنانچہ ۲۰۰۵ کا نوبل پیس پرائز انڈیا کے شری شری روی شنکر کو دیاگیا ہے جو اپنے آرٹ آف لونگ کے لیے مشہور ہیں۔ (ٹائمز آف انڈیا، نئی دہلی، ۲۵ ستمبر ۲۰۰۵)
جدید دور کے صوفی بھی اپنے انداز پر یہ کام کررہے ہیں۔ وہ ذکر اور مراقبہ(meditation) جیسی تدبیروں کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہیں کہ انسان مادّی تفکرات سے اوپر اٹھے، اور ذہنی سکون کا تجربہ کرے۔
مسلم صوفی اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ مثلاً انسان کو مادّی دنیا سے نکال کر خانقاہ کے الگ تھلگ ماحول میں لے جانا، انسان کو ذکر اور مراقبہ جیسے اعمال میں مشغول کرکے اس کے ذہن کو موڑنا۔ سِماع یعنی ساز اور گانے کے ذریعے انسانی ذہن کو ایک تصوراتی دنیا میں لے جانا۔ بعض صوفیا مثلاً ترکی کے درویش اِن اعمال میں رقص کو بھی شامل کرتے ہیں۔ میں نے اپنے بعض بیرونی سفروں میں ساز ونغمہ پر رقص کرنے والے صوفیوں کے اس منظر کو خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔
صوفی ازم کے مروّجہ اعمال کے ذریعہ آدمی کو جو داخلی کیفیت ملتی ہے، اس کو مسلم صوفیا وجْد (ecstacy) کانام دیتے ہیں۔ صوفیا نہ اعمال کے ذریعے جب کسی انسان کو وجد آتا ہے تو اُس وقت اس کے ذہنی تدبر اور تفکر والے احساسات دَب جاتے ہیں۔ اُس وقت وہ اپنے اندر ایک قسم کی بے فکری کا تجربہ کرتا ہے۔ یہ بے فکری اس کو ذہنی سکون دیتی ہے۔
صوفی ازم کا زور جو سائنسی دَور سے پہلے تھا وہ اب کسی ملک میں دکھائی نہیں دیتا۔ میرا خیال یہ ہے کہ آج نیو(neo) صوفی ازم کی تحریک چلائی جائے تاکہ صوفی ازم لوگوں کو دورِ جدید سے پوری طرح ریلوینٹ نظر آنے لگے اور اس طرح صوفی ازم کو دوبارہ عظمت کا وہ مقام مل جائے جو اس کو ماضی میں حاصل تھا (۲۹ ستمبر ۲۰۰۵)