صحیح تدبیر
۴ نومبر ۲۰۰۴ کی صبح کو میں نئی دہلی میں اپنے دفتر میں تھا۔ حسب معمول میں نے بی بی سی لندن سے خبریں سننے کے لیے اپنے ریڈیو سیٹ کو کھولا۔ پہلی خبر ان الفاظ میں تھی: امریکا کے صدارتی الیکشن میں جان کیری کے مقابلے میں جارج بش جیت گئے۔ بش کو اتنازیادہ ووٹ ملے کہ امریکا کی تاریخ میں کسی بھی صدر کو تعداد کے اعتبار سے اتنے زیادہ ووٹ نہیں ملے تھے۔
یہ خبر سن کر بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگیے۔ میں رورہا تھا اور میری زبان پر یہ الفاظ تھے:
امریکا کے اس الیکشن نے ثابت کردیا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما اور دانشور آخری حد تک عقلی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ خود بھی بے دانشی میں مبتلا ہیں اور انھوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو بے دانشی میں مبتلا کردیا ہے۔ یہاں تک کہ اب لوگوں کے اندر بظاہر یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ معاملات کو گہرائی کے ساتھ سمجھیں اور صحیح فیصلہ لے سکیں۔ ٹائمس آف انڈیا کے شمارہ ۳ نومبر ۲۰۰۴ نے امریکی تاریخ میں آنے والے اس دن کو فیصلے کا دن(Judgement Day) کہا تھا۔ مگر یہ دن امریکا سے زیادہ موجودہ مسلمانوں کے حق میں فیصلے کا دن بن گیا۔
یہ الیکشن امریکا کے ۲۶ ویں صدر کے انتخاب کے لیے تھا مگر ساری دنیا کے مسلمانوں میں اس کا اتنا چرچا تھا جیسے وہ مسلم ملکوں کا اپنا الیکشن ہو۔ تمام دنیا کے مسلمان، مغرب سے لے کر مشرق تک اور عرب سے لے کر عجم تک بش کے خلاف متحد ہوگیے۔ پوری مسلم دنیا میں شاید میں اکیلا مسلمان تھا جو اس منفی اتحاد میں شریک نہ تھا۔ الیکشن سے صرف ایک دن پہلے ۳ نومبر کی صبح کو بی بی سی لندن پر بولتے ہوئے سعودی عرب کے ایک سینئر صحافی نے کہا تھا کہ اس وقت تمام کے تمام مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ جارج بش اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے۔ آج تمام مسلمان بش سے نفرت کرتے ہیں اور الکشن میں اس کی ہار کا شدت سے انتظار کررہے ہیں۔
امریکی اور غیر امریکی مسلمانوں کی یہ پالیسی بلا شبہہ عقلی دیوالیہ پن کے ہم معنی تھی۔ اس لیے کہ امریکا کا صدر کون بنے اس کا فیصلہ امریکی ووٹروں کو کرنا تھا نہ کہ مختلف ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو۔ ایسی حالت میں اصل اہمیت یہ تھی کہ امریکی ووٹر وں کے ذہن کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق، اپنی منصوبہ بندی کی جائے۔ جارج بش سے نفرت کرنا یا جارج بش کے خلاف لفظی غوغا کرنا ایک ایسی غیر متعلق بات تھی جس کا امریکی الیکشن کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں۔
میں ذاتی طورپر اس نظریے کو بالکل بے معنٰی سمجھتا ہوں کہ کوئی فرد اسلام کا دشمن نمبر ایک ہوتا ہے۔ اور اسلام کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ اس فرد کو کسی نہ کسی طرح زیر کردیا جائے۔ تاہم جو لوگ یہ چاہتے تھے کہ اس الیکشن میں جارج بش کو شکست ہو، انھیں صورت حال کا جائزہ لے کر یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ جمہوری نظام کے اعتبار سے کسی امیدوار کو شکست دینے کا طریقہ کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ امریکی انتخاب میں فیصلہ کن حیثیت صرف امریکی ووٹروں کی ہے۔ اب بے لاگ مطالعے کے ذریعے یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ امریکی ووٹروں کی سوچ کیا ہے۔ ایک مبصر نے درست طورپر کہا ہے کہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کو نیویارک کے ورلڈ ٹاور کے ساتھ جو واقعہ ہوا اس کے بعد امریکی ووٹروں کی ساری سوچ اس واقعے سے جڑ گئی۔ اب امریکی ووٹریہ سمجھنے لگے کہ وہ خود اپنے ملک میں غیر محفوظ ہیں اور ان کو اس طرح غیر محفوظ بنانے والے وہ لوگ ہیں جن کو وہ مسلم ٹررسٹ (Muslim terrorist) کہتے ہیں۔ امریکی ووٹروں کی اس سوچ نے ان کے لیے اقتصادی اِشو کو ثانوی اشو بنا دیا اور قومی تحفظ کے اشو کو ان کے لیے نمبر ایک اشو بنا دیا۔ مبصر کے الفاظ میں، وہ اپنے لیے ایک ایسا صدر چاہتے ہیں جو مضبوط اور فیصلہ کن (strong and decisive) شخصیت کا حامل ہو اور عام طورپر امریکیوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ اس صفت کے اعتبار سے جارج بش ان کے لیے قابل انتخاب ہیں نہ کہ جان کیری۔
ایسی حالت میں اگر مسلمان یہ چاہتے تھے کہ جارج بش الیکشن میں ہارے تو انھیں جاننا چاہیے تھا کہ یہ مقصد اس طرح حاصل نہیں ہوسکتا کہ وہ جارج بش کے خلاف براہ راست لفظی غوغا شروع کردیں۔ اس طرح کی غوغا آرائی امریکی ووٹروں کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والی نہیں تھی۔ اس کی صورت صرف یہ تھی کہ دنیا بھر کے مسلمان خود اپنی قوم کے ان لوگوں کو کنڈم کرتے جو امریکا کے خلاف متشددانہ جہاد چھیڑے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں امریکی ووٹروں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت تھی کہ جو مسلم ٹررسٹ ان کے خلاف تشدد کی کارروائیاں کررہے ہیں ان کو خود مسلمانوں نے کنڈم کرنا شروع کردیا ہے۔ وہ مسلم سماج میں بے جگہ ہو کر رہ گیے ہیں۔ اور آئندہ کے لیے اپنا حوصلہ کھو بیٹھے ہیں۔
مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے لوگ اگر ایسا کرتے تو وہ امریکی ووٹروں کی سوچ کو بدل سکتے تھے۔ اس کے بعد امریکیوں کا ووٹنگ پیٹرن یقینا بدل جاتا اور خود امریکی ووٹروں کے ذریعے مسلمانوں کو وہ مطلوب انتخابی مقصد حاصل ہوجاتا جس کو وہ بے فائدہ طورپر جارج بش کے خلاف غوغاآرائی کرکے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔