ایک خط

محترمہ نور باجی صاحبہ!     السلام علیکم ورحمۃ اللہ

آپ سے ٹیلی فون پر چند بار گفتگو ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ مولانا محمد ذکوان ندوی سے اکثر آپ کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو سویڈن(ا سٹاک ہوم ) میں تین سال تک آپ سے قریب رہے ہیں، اور اب دہلی میں مقیم ہیں۔ میں نے آپ کے بارے میں جو اندازہ کیا ہے اس کے مطابق، آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ آپ کو خدا نے بہترین صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ مگر جب بھی آپ کا خیال آتا ہے مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ:

She is underutilizing her great potential.

دور سے میں آپ کو جتنا پڑھ سکا ہوں اُس کے مطابق، غالباً آپ کا کیس اُس نوعیت کا کیس ہے، جو خالد بن ولیدؓ کا اسلام سے پہلے تھا۔ خالد بن ولید ایک سلیم الفطرت انسان تھے۔ خالد بن ولید نے فتحِ مکّہ سے کچھ پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ انھوں نے ایک بار کہا کہ میں اسلام سے پہلے قریش کے ساتھ اُن کی اسلام مخالف سرگرمیوں میں قائدانہ طورپر شریک رہتا تھا۔ مگر اندر سے میں محسوس کرتاتھا کہ میں اپنے آپ کو غلط جگہ پر رکھے ہوئے ہوں (إنّی مُوضع فی غیر شییٔ)

میرا احساس ہے کہ آپ مسلسل طورپر عدم اطمینان میں مبتلا رہتی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، اس عدم اطمینان کا سبب یہ ہے کہ آپ نے ابھی تک اپنے آپ کو اُس کام میں نہیں لگایا جس کے لیے آپ پیدا کی گئی ہیں، اور یہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ غالباً آپ کی ضرورت یہ ہے کہ آپ کو وہ چیز حاصل ہوجائے جس میں مشغول ہوکر آپ کو داخلی طورپر پوری طرح فُل فِل مینٹ (fulfillment) ملنے لگے۔یعنی آپ کا داخلی جذبہ اور آپ کا خارجی عمل دونوں ایک ہوجائیں۔

آپ کے لیے غالباً وہ کام مقدّر ہے جو دوراوّل میں صحابہ اور صحابیات نے کیا تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخر عمر میں حجۃ الوداع میں اپنے اَصحاب کو خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا: اللہ نے مجھے تمام دنیا کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔ تم لوگ میری طرف سے، اس ذمّے داری کو اداکرو۔ آپ نے فرمایا کہ پس جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں (فلیبلغ الشاہد الغائب)

یہ بات آپ نے اپنی وفات سے تقریباً دو مہینے پہلے اپنے ایک خطاب میں فرمائی تھی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ اصحابِ رسول کی بیش تر تعداد مکّہ اور مدینہ سے باہر چلی گئی۔ یہ لوگ مختلف بیرونی ملکوں میں پھیل گیے۔ ہر جگہ انھوں نے اسلام کے پیغام کو پہنچایا۔ اِن میں صحابہ کے علاوہ صحابیات بھی شامل تھیں۔ اِس کا تاریخی ریکارڈ یہ ہے کہ قَبرص (Cyprus) میں ایک صحابیہ کی قبر اب تک موجود ہے۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ سمندری سفر کرکے وہاں پہنچی تھیں۔

اس صحابی خاتون کا نام اُمِّ حرام بنت ملحان ہے۔ یہ واقعہ صحیح البخاری میں تین مقام پر آیا ہے۔ کتاب الجہاد میں باب غزو المرأۃ فی البحرکے تحت، وہ اِس طرح نقل ہوا ہے:

عبداللہ بن عبدالرحمن انصاری روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ام حرام) بنتِ ملحان کے گھر آئے۔ آپ نے وہاں ٹیک لگائی(اور آپ سو گیے) پھر آپ ہنسے۔ اُمّ حرام نے کہا: اے خدا کے رسول! آپ کیوں ہنسے۔ آپ نے کہا کہ میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں بحرِ اخضر (Mediterranean Sea) کا سفر کریں گے۔اُن کا درجہ (جنت میں ) ایسا ہوگا جیسے تخت پر بادشاہ۔ ام حرام نے کہا کہ اے خدا کے رسول! اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھ کو اُن لوگوں میں سے بنائے۔ آپ نے کہا کہ اے اللہ! ام حرام کو اُن میں سے بنا۔ آپ دوبارہ لیٹ گیے، اور پھر (اُٹھ کر) دوبارہ ہنسے۔ اُمّ حرام نے دوبارہ ویسا ہی سوال کیا۔ آپ نے دوبارہ ویسا ہی جواب دیا۔ امّ حرام نے کہا کہ اللہ سے دعا کیجیے کہ وہ مجھ کو اُن لوگوں میں سے بنائے۔ آپ نے کہا کہ تم پہلے والوں میں سے ہو۔ اور تم بعد والوں میں سے نہیں ہو۔ (أنتِ من الأولین ولستِ من الآخرین)۔ انس نے کہا کہ پھر امّ حرام نے عُبادہ بن صامت انصاری سے نکاح کیا۔ پھر انھوں نے (اپنے شوہر اور) بنتِ قَرَظہ (زوجہ معاویہ بن سفیان) کے ساتھ سمندری سفر کیا۔ پھر واپسی میں وہ اپنی سواری پر بیٹھیں۔ پھر وہ سواری سے گر پڑیں اور ان کی وفات ہوگئی‘‘۔ (۶؍۹۰)

شارح کہتے ہیں کہ: دُفنت فی قبرص، و یسمّی قبرہا ہناک ’’قبر المرأۃ الصالحۃ‘‘۔ یعنی قبرص میں وہ دفن کی گئیں اور وہاں ان کی قبر کو ایک نیک خاتون کی قبر کہا جاتا ہے (حیاۃ الصحابۃ ۱؍۵۹۲)

اس حدیث میں دو ایسے مسلم قافلوں کا ذکر ہے جو دعوت الی اللہ کے لیے بیرونی سفر کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے مراد، دو مسلم ڈائسپورا (Muslim diaspora) ہے۔ پہلا ڈائسپورا وہ ہے جو صحابہ کے زمانے میں پیش آیا، جس کی ایک ممبر ام حرام تھیں۔ اور دوسرا ڈائسپورا وہ ہے جو موجودہ زمانے میں پیش آیا ہے، اور آپ جس کا ایک حصہ ہیں۔ میرا دل کہتاہے کہ اس حدیث میں آپ کے لیے ایک بشارت ہے۔ آپ گویا اسلامی تاریخ کی دوسری امّ حرام ہیں۔ آپ رسول اللہ کی اُس پیشین گوئی کا ایک حصہ ہیں جس میں بعد کے زمانے میں پیش آنے والے دوسرے قافلے کا ذکر کیاگیا ہے۔ امّ حرام اگر پہلے قافلے میں شامل تھیں تو آپ دوسرے قافلے میں شامل ہیں۔

مذکورہ حدیث کے مطابق، آپ کا سویڈن میں ہونا آپ کو یہ موقع دے رہا ہے کہ آپ اپنی دعا میں یہ کہہ سکیں کہ خدایا! مجھے اُس دوسرے دعوتی قافلے کا ایک ممبر بنا جو تیرے رسول کی پیشین گوئی کے مطابق، بیرونی سفر کرے گا اور بیرونی دنیا کے لوگوں کو تیرا پیغام پہنچائے گا۔ ایسی دعا بہت اہم دعا ہے جس میں آدمی کو دعا کرنے کے لیے کوئی ریفرنس مل رہا ہو۔ اور یہ حدیث آپ کو اس قسم کا ایک بہترین ریفرنس دے رہی ہے۔

دعا کے سلسلے میں ریفرنس کے معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاں دو واقعہ نقل کروں گا۔ ایک واقعہ وہ ہے جو حدیث کی کتاب صحیح البخاری میں آیا ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تین اللہ کے بندوں نے اپنے ایک عمل کو بطور ریفرنس استعمال کرکے خدا سے دعا کی۔ یہ دعا اس طرح مقبول ہوئی کہ اس کی وجہ سے ایک پہاڑی پتھر کھسک گیا۔ اور اُن کے لیے راستہ نکل آیا(فتح الباری، کتاب الادب، باب اجابۃ دعاء من بَرَّ والدیہ، ۱۰؍۴۱۸)

دوسرا واقعہ خود میری ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ واقعہ میں نے اپنی کتاب سفر نامۂ اسپین وفلسطین میں لکھا ہے۔ اس واقعے کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

۲۹؍ اگست ۱۹۹۵کو میں دوسری بار مسجد اقصیٰ میں داخل ہوا، اور وہاں دو رکعت نماز ادا کی۔ اُس وقت اسرائیل کے اعتبار سے ۹ بجے صبح کا وقت تھا اور ہندستان کے لحاظ سے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت۔ نماز پڑھتے ہوئے میرا دل بھر آیا جب میں نے سجدہ کرتے ہوئے زمین پر سر رکھا تو اُس وقت میری زبان سے دعا کے یہ الفاظ نکلے: خدایا! زمانے کا فرق تیرے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ تو میرے لیے زمانی دُوری کو ختم کردے اور مجھ کو اُس مقدس جماعت کی صف میں شریک کردے جب کہ رسول اللہ یہاں امامت کررہے تھے اور اُن کے پیچھے انبیاء صف باندھ کر نماز ادا کررہے تھے‘‘۔ (صفحہ ۱۳۴)

آپ جیسے لوگ جو مغربی ملکوں میں رہتے ہیں وہ وہاں کے بظاہر ناموافق ماحول سے اکثر پریشان رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم کس اندھیرے میں یہاں آکر پھنس گیے‘‘ مگر یہ منفی احساس درست نہیں۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کے اندر مثبت شعور پیدا ہو۔ آ پ یہ سوچیں کہ خدا نے ہم کو یہاں بھیج کر ہمارے ساتھ خصوصی رحمت کا معاملہ فرمایا ہے۔ یہاں بھیج کر اُس نے ہم کو یہ قیمتی موقع دیا ہے کہ ہم خدا کے بندوں کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور خدا کی ابدی جنت کے مستحق بنیں۔

میرا مشورہ ہے کہ آپ اِس قسم کی نگیٹیو سوچ کو پازیٹیو سوچ میں بدلیں۔ آپ یہ سوچیں کہ یہ وہ خصوصی معاملہ ہے جو خدا نے پیغمبرکے ساتھ کیا تھا۔ خدا نے اپنے پیغمبر کو بھٹکے ہوئے لوگوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ انھیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے۔اِس رحمت کے معاملے کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لتخرج الناس من الظلمات إلی النور (ابراہیم، ۱)

صحابی خاتون ام حرام بنت ملحان کے زمانے میں ڈائسپورا کا جو واقعہ پیش آیا وہ اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کا پہلا ڈائسپورا تھا۔ ڈائسپورا کا لفظ عام طورپر اُن یہودیوں کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنے وطن فلسطین سے نکل کر باہر کے ملکوں میں گیے، اور وہاں غیر یہودیوں کے ساتھ رہنے لگے۔ اس اعتبار سے اسلامک ڈائسپورا یہ ہے کہ مسلمان اپنے وطن سے نکل کر باہر کے ملکوں میں جائیں اور وہاں ایسے مقامات پر رہائش اختیار کریں جہاں اُن کا انٹریکشن (interaction) غیر مسلموں سے ہونے لگے۔ یہی انٹریکشن دعوت کا اصل ذریعہ ہے۔ سویڈن یا دوسرے مغربی ملکوں میں جو مسلمان، تارکین وطن کی حیثیت سے رہتے ہیں، وہ یہی لوگ ہیں۔ یہ لوگ گویا کہ— مسلمس اِن ڈائسپورا (Muslims in Diaspora) کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ لوگ امکانی طورپر خدا کے سفیر (ambassadors of God) ہیں۔ اور آپ یقینی طورپر اُن میں سے ایک ہیں۔

آپ اور آپ جیسے دوسرے مسلمان عورت اور مرد جو یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں اُن کو اَصحابِ رسول کی یہی نسبت حاصل ہوگئی ہے۔ ان کا معاملہ اِس پہلو سے اصحابِ رسول جیسا معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا کہ آپ جیسے لوگوں سے دوبارہ یہ فرمارہے ہیں کہ اے میری امت کے لوگو! تم میری امت کے ’’آخرین‘‘ میں سے ہو۔ حالات نے تم کو جن غیر مسلم ملکوں میں پہنچایا ہے، وہاں کے لوگوں کو تم میرا پیغام پہنچا دو تاکہ اُن لوگوں کے سلسلے میں میری جو پیغمبرانہ ذمے داری ہے وہ تمہارے ذریعے ادا ہوجائے۔

یہ تفصیل میں نے اس لیے بیان کی تاکہ آپ پر یہ واضح کروں کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ کا فریضہ کیا ہے، اور خدا اور رسول کی طرف سے آپ کے اوپر کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ وہ ذمّے داری ایک لفظ میں، دعوت الی اللہ ہے۔ یعنی اللہ کے پیغام کو اُس کی بے آمیز صورت میں تمام لوگوں تک پہنچا دینا۔

اس وقت آپ جن لوگوں کے درمیان ہیں اُن میں غیر مسلم بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ غیر مسلم کا کیس اسلام سے بے خبری کا کیس ہے، اور مسلمانوں کا کیس اسلام سے غفلت کا کیس۔ غیر مسلم سِرے سے اِس بات کو نہیں جانتے کہ خدا نے اپنے پیغمبر کے ذریعے جو دین،انسانیت کے لیے بھیجا ہے وہ کیا ہے۔ اور موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ رسمی طور پر اسلام سے آشنا ہیں مگر زندہ شعور کی حیثیت سے خدا کادین اُن کے ذہن کا حصہ نہیں۔ اب آپ جیسے لوگوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ دین حق کو غیر مسلموں کے لیے اُن کی ڈسکوری بنائیں اور مسلمانوں کے لیے دین حق کو اس حیثیت سے متعارَف کریں کہ وہ ان کے لیے ری ڈسکوری (re-discovery) بن جائے۔

میں عرض کروں گا کہ اگر آپ اِس کا فیصلہ کریں کہ آپ کو تاریخ اسلام کی دوسری ’’اُمّ حرام ‘‘ بننا ہے، تو آپ کے عمل کا نقطۂ آغاز صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے دعا اور مطالعہ۔ ہمارے یہاں جو کتابیں اردو اور انگریزی میں چھپی ہیں وہ سب براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسی سے متعلق ہیں کہ موجودہ زمانے میں دعوتِ اسلام کا کام کس طرح کیا جائے۔ اِن تمام کتابوں کا مشترک موضوع صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب (modern idiom) میں بیان کرنا۔

آپ اگر سنجیدگی کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ آپ کو اپنی بقیہ زندگی دعوت الی اللہ کے کام میں لگانا ہے تو سب سے پہلے آپ کو اپنے آپ کوپوری طرح تیار کرنا ہوگا۔ دعوت کا کام منصوبہ بندی کا کام ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر دعوت کا کام مؤثر طورپر انجام نہیں دیا جاسکتا۔ ماہ نامہ الرسالہ کے شمارہ اگست ۲۰۰۳ میں سوئزرلینڈ کا سفر نامہ شائع ہوا تھا۔ اس کے ٹائٹل پر میں نے لکھا تھا—’’اپنی زندگی کا پہلا نصف حصہ ہر آدمی کھوچکا ہے۔ کامیاب وہ ہے جو اپنی زندگی کے دوسرے نصف حصے کو نہ کھوئے‘‘۔ آپ اگر اِس جملے پر غور کریں تو آپ اس میں اپنے تمام سوالات کا جواب پالیں گی۔

میری ایک کتاب خواتین سے متعلق ہے۔ اس کا نام ’’عورت، معمارِ انسانیت‘‘ ہے۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے بہترین ازدواجی زندگی وہ ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر(intellectual partner) بن جائیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس اصول کو اپنی زندگی میں پوری طرح اختیار کرلیں۔ آپ اور آپ کے شوہر دونوں ایک دوسرے کے لیے انٹلکچول پارٹنر بن جائیں۔ ازدواجی زندگی کی بلاشبہہ سب سے زیادہ معیاری صورت یہی ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ ایک خاص احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی زندگی کے ساتھی کو اپنا انٹلکچول پارٹنر نہیں بنا پاتے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مرد زیادہ تعلیم یافتہ ہے اورعورت کم تعلیم یافتہ۔ اب مرد یہ سوچتا ہے کہ کم تعلیم یافتہ بیوی کو میں کس طرح اپنا انٹلکچول پارٹنر بناؤں۔ اسی طرح کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت نے یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور مرد رسمی نوعیت کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ایسی حالت میں عورت کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنے کم تعلیم یافتہ شوہر کو کیسے اپنا انٹلکچول پارٹنر بناؤں۔ اس طرح بہت سے عورت اور مرد ایک عظیم نعمت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔

میں کہوں گا کہ کسی کو انٹلکچول پارٹنر بنانے کے لیے یونیورسٹی کی ڈگری کی ضرورت نہیں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: علّم اٰدم الاسماء کلہا (البقرہ: ۳۱) قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر تمام اشیاء کا علم رکھتا ہے۔ جدید تحقیقات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ہر فرد کے برین (brain) میں ہزاروں بلین سے بھی زیادہ پارٹکل ہوتے ہیں۔ یہ پارٹکل کیا ہیں۔ یہ دراصل انفارمیشن پارٹکل ہیں، یعنی علم کے پارٹکل۔

اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایک شخص اگر یونیورسٹی آف سویڈن کا سند یافتہ نہیں ہے تب بھی وہ یونیورسٹی آف گاڈ سے سند لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ ایسی حالت میں ہر انسان یکساں طورپر تعلیم یافتہ ہے۔ ہر عورت اور ہر مرد کے لیے یہ امکان پوری طرح موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ساتھی کو اپنا انٹلکچول پارٹنر بنائے۔ اور ذہنی ارتقاء کے اُن عظیم فائدوں میں حصے دار بنے جو خالقِ فطرت نے ہر عورت اور مرد کے لیے مقدر کردیا ہے۔

میں کہوں گا آپ اس معاملے میں میرے مشورے کو مزید غور وفکر کے بغیر فوراً اختیار کرلیں اور آج ہی سے اپنے گھر کو انٹلکچول پارٹنر شِپ کا ایک نمونہ بنادیں۔ اس سے ایک طرف خود آپ کو غیر معمولی فائدے حاصل ہوں گے اور اس کے ساتھ آپ کا یہ عمل دوسروں کے لیے ایک قابلِ تقلیدمثال بن جائے گا۔ انٹلکچول پارٹنر شپ کے اس اصول کے بہت سے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کا گھر آپ کے لیے ایک جائے سُکون (peace haven) بن جاتا ہے۔

نئی دہلی ۳۰ نومبر ۲۰۰۵             دعا گو    وحید الدین

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom