ایک خط
برادرِ محترم مولانا محی الدین غازی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہنامہ رفیقِ منزل (نئی دہلی) کا شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ دیکھا۔ اس شمارے میں آپ کا ایک مضمون چھپاہے۔ اس مضمون کاعنوان ہے—فقہ الاقلیات:ایک تعارف۔ اس مضمون کو دیکھنے کے بعد میں آپ کو یہ خط لکھ رہاہوں۔ اس سلسلے میں مجھے آپ سے دوباتیں کہنا ہے۔
موجودہ زمانے میں فقہ الاقلیات کے نام سے ایک نیا موضوع سامنے آیا ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی تحریریں اردو، عربی اور انگریزی میں شائع ہوئی ہیں۔ اِن تحریروں میں اکثر تحریروں سے مجھے واقف ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلے میں اپنا تأثر آپ تک پہنچانے کے لیے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ غیر مسلم ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کا مطالعہ ’’اقلیت‘‘ کی حیثیت سے کرنا، میرے نزدیک، اصولی طورپر ہی غلط ہے۔ مسلمان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ داعی گروہ ہیں نہ کہ محض اقلیتی یا اکثریتی گروہ۔ مسلمان کو داعی گروہ کا درجہ دیا جائے تو اس سے مسلمانوں کی دعوتی ذمے داری سامنے آتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر مسلمانوں کو معروف معنوں میں اقلیت کہاجائے تو اُس سے یہ تأثر پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ایسا گروہ ہیں جن کو غیر مسلم اکثریت کی طرف سے کچھ مسائل درپیش ہیں، اور ضرورت یہ ہے کہ اِن مسائل کو حل کیا جائے۔ مثلاً دینی شناخت کو برقرار رکھنے کا مسئلہ۔ گویا کہ یہ مسلمان صرف ایک متأثر گروہ ہیں نہ کہ ایک مؤثّر گروہ۔
اقلیتی مسائل کا یہ نظریہ مسلمانوں کے اندر وہ ذہن بناتا ہے جس کو قرآن کی تعبیر کے مطابق، غیر ناصح اور طالبِ اجر ذہن کہا جاسکتا ہے، اور اس قسم کا ذہن یقینی طورپر اسلامی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ ذہن مسلمانوں کے اندر بیک وقت دو نقصان کا سبب بنتا ہے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کے اندر فکری ارتقاء(intellectual development) کا عمل رُک جاتا ہے، کیوں کہ فکری ارتقاء کھلے ماحول میں ہوتا ہے نہ کہ بندش کے ماحول میں۔ اور اپنے آپ کو اقلیت سمجھنا، آدمی کے اندر کھلی تفکیر کا مزاج ختم کردیتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس قسم کا ذہن حقیقی دعوتی عمل کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔کیوں کہ اقلیت کا تصور حریفانہ نفسیات پیدا کرتا ہے۔ جب کہ دعوت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان دوستانہ تعلق پایا جارہا ہوں۔
اس کی ایک مثال مشہور عرب عالِم ڈاکٹر یوسف القرضاوی ہیں۔ میں نے ان کی تحریریں پڑھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے مسائل کا معاملہ ہو تو وہ تیسیر کے اصول پر فتویٰ دیتے ہیں، اور اگر غیر مسلموں کی نسبت سے کوئی معاملہ ہو، مثلاً غیر مسلموں کے خلاف مسلمانوں کی خود کُش بم باری، تو وہ بَرعکس طورپر، تَعسیر کے اصول پر اپنا فتویٰ جاری کرتے ہیں۔ یہ فرق اس لیے ہے کہ اِس قسم کے لوگ اپنے مذکورہ ذہن کی بنا پر مسلم کے بارے میں ہمدرد، اور نان مسلم کے بارے میں غیرہمدرد بن جاتے ہیں۔
آپ جیسے لوگ ’’اقلیت‘‘ کے نام سے مسلمانوں کو جو سوچ دے رہے ہیں اُس کا یہ نتیجہ ہے کہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر،شکست خوردہ ذہنیت پرورش پارہی ہے۔ ہر معاملے میں اُن کی سوچ غیر تعمیری سوچ بن گئی ہے۔ مگر قرآن ’’اقلیت‘‘ کو جو ذہن دیتا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ قرآن ایسے لوگوں کے اندر مفتوح نفسیات کے بجائے فاتح نفسیات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر قرآن کی اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃً بإذن اللہ (البقرۃ: ۲۴۹)
اِس آیت میں اِذن سے مراد خدا کا قائم کیا ہوا قانونِ فطرت ہے۔ یہ دنیا جس قانون کے تحت چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ سماج میں جو اقلیتی گروہ ہو اُس کے اندر تحدّیاتی حالات کے نتیجے میں تخلیقی صلاحیتیں ابھریں۔ وہ بڑے بڑے کام کرنے کے قابل ہوسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ خوداسلام کی ابتدائی تاریخ میں ہوا ہے۔ قدیم مکّہ میں جن لوگوں نے اسلام کی صورت میں سچّائی کو دریافت کیا وہ عددی اعتبار سے وہاں اقلیتی گروہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگراسی اقلیتی گروہ نے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی کوئی دوسری مثال معلوم تاریخ میں نہیں ملتی۔
اس سلسلے میں ایک اور بات نہایت قابل ذکر ہے۔ وہ یہ کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی، خالد محمد عبدالقادر اور اِس طرح کے دوسرے لوگ اس موضوع پر جس انداز سے لکھتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے نزدیک یہ مسئلہ صرف مسلم اقلیت کا مسئلہ ہے، مگر یہ بات درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ مسلم اکثریت کے لیے بھی اُسی طرح ایک سنگین مسئلہ ہے جس طرح وہ مسلم اقلیت کے لیے ایک سنگین مسئلہ نظر آتا ہے۔ صرف اِس فرق کے ساتھ کہ مسلم اقلیت کے علاقوں میں یہ مسئلہ اگر ہمسائیگی کے نتیجے میں پیش آیا ہے تو مسلم اکثریت کے علاقوں میں خود مسلمانوں نے اس کو باہر سے امپورٹ کرلیا ہے۔ شاعر کے الفاظ میں :
کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد،کہ ہم خود اُٹھا لاتے ہیں، گر تیر خطا ہوتا ہے
میں نے ایک عربی جریدے میں ایک مضمون پڑھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ مسلم اقلیتوں کو یہ خطرہ درپیش ہے کہ وہ غیر مسلم تہذیب میں گھُل مل جائیں (الأقلیات المسلمۃ تواجہ خطر الذَوبان) یہ مضمون ہندستان جیسے ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔ مگر ’’ذَوبان‘‘ کا یہی خطرہ خود مسلم اکثریت کے علاقوں میں بھی یکساں طورپر موجود ہے۔ وہ اس طرح کہ ایسے علاقے کے مسلمان بہت بڑے پیمانے پر مغربی کلچر کوخود مغربی ملکوں سے در آمد کررہے ہیں اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مغربی کلچر کسی بھی حال میں انڈین کلچر سے کم ضرر رساں نہیں۔ عرب اور دوسرے مسلم اکثریت کے اہل علم اس موضوع پر اس طرح لکھتے ہیں جیسے وہ خود اس فتنے سے محفوظ ہوں۔ حالاں کہ جاننے والے جانتے ہیں کہ غیر مسلم تہذیب کا فتنہ بارش کی طرح خود اُن کے اوپر بھی برس رہا ہے، اور یہ تمام لوگ عملاً اس میں غرق ہوچکے ہیں۔
وہ چیز جس کو اقلیت کا مسئلہ کہاجاتا ہے، وہ عملی طورپر سوسال سے بھی زیادہ مدت سے دنیا میں موجود ہے۔ لیکن فقہ الاقلیات کی اصطلاح اکیسویں صدی کے آغاز میں شروع ہوئی۔ ابتداء ً اِس طرزِ فکر کا آغاز معربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل سے ہوا۔ مثلاً ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کا مسئلہ، اوقاتِ عبادت کا مسئلہ، نکاح وطلاق کا مسئلہ، بینکوں سے مالی لین دین کا مسئلہ وغیرہ۔ گویا کہ فقہ الاقلیات کا موضوع حالات کے ردّ عمل کے تحت وجود میں آیا، وہ کسی مثبت فکر کی پیداوار نہ تھا۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین بڑی تعداد میں عرب علاقے سے نکلے اور بیرونی ملکوں میں جاکر آباد ہوگیے۔ اِن ملکوں میں اُس وقت غیر مسلموں کی اکثریت تھی اور صحابہ وتابعین کی حیثیت اقلیت کی۔ مگراُس وقت ایسا نہیں ہوا کہ ان کا مطالعہ فقہ الاقلیات کے تحت کیاجائے۔ ان کے لیے بھی بلا شبہہ وہ جزئی مسائل پیدا ہوئے جو آج مسلم اقلیتوں کی نسبت سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اُس وقت کے علماء اور فقہاء نے ان کے معاملات کے مطالعے کے لیے فقہ الاقلیات کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے کی فقہی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں فقہ الاقلیات کا باب موجو نہیں۔
اس کا سبب یہ ہے اس زمانے کے صحابہ وتابعین جس ذہن کے تحت بیرونی ملکوں میں جاکر بسے تھے، وہ مکمل طورپر مثبت قسم کا دعوتی ذہن تھا۔ مثبت ذہن وہ ہے جو اصولِ عام کے تحت بنے، اور ردِّعمل کا ذہن وہ ہے جو وقتی حالات کے تحت بنے۔ اس مثبت ذہن کی بنا پر ایسا ہوا کہ ان کی ساری سوچ دعوت رُخی (Dawah Oriented) سوچ بنی۔ بقیہ تمام چیزیں ان کے لیے سکنڈری درجے میں چلی گئیں۔ اسی فرق کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کی مسلم اقلیتیں صرف اپنے ’’ملّی‘‘ مسائل کے حل میں مصروف ہے۔ جو کہ آج تک حل نہیں ہوئے اور نہ وہ کبھی حل ہونے والے ہیں۔ اس کے برعکس، صحابہ و تابعین کے دعوتی مزاج کا یہ نتیجہ ہواکہ انھوں نے بیرونِ عرب کے ان ملکوں کو اسلامائزکردیا۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ وہ جغرافی علاقہ وجود میں آیا جس کو بلادِ عرب یا بلادِ مسلمین کہا جاتا ہے۔
اس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک مبتدعانہ اصطلاح ہے۔ صحابہ وتابعین کے نمونے کو دیکھتے ہوئے صحیح بات یہ ہوگی کہ فقہ الدعوۃ کی اصطلاح وضع کی جائے۔ اور اس موضوع کے تحت اس بات کا مطالعہ کیا جائے کہ صحابہ و تابعین نے کس طرح پورے پورے علاقے کے لوگوں کو اسلام میں داخل کردیا۔ غیر مسلم ملکوں میں آباد مسلمانوں کے لیے فقہ الاقلیات کی اصطلاح ایک تباہ کن اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اِن مسلمانوں کے اندر ایک غیر مطلوب قومی ذہن بناتی ہے۔ جب کہ فقہ الدعوہ کی اصطلاح ان کے اندر داعیانہ ذہن بنانے والی ہے جو کہ ایک آفاقی ذہن ہے نہ کہ کسی قسم کا محدود ذہن۔
آج کل مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والوں میں ایک بات بہت عام ہے۔ وہ بہت جوش کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین ہے (الإسلام دین شامل وکامل) مگر عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو قرآن میں مفروضہ طورپر سیاسی ہنگامہ آرائی کے لیے توآیتیں مل جاتی ہیں مگر مسلم اقلیت کی رہنمائی کے لیے انھیں قرآن میں کوئی آیت نہیں ملتی۔ یہ لوگ اپنی نام نہاد انقلابی سرگرمیوں کے لیے تو فقہُ السیاسۃ کا موضوع ایجاد کرلیتے ہیں مگر مسلمانوں کی دعوتی ذمّے داریوں کو بتانے کے لیے انھیں فقہ الدعوہ کی تعلیمات قرآن اور حدیث میں دکھائی نہیں دیتیں۔
قرآن کو آپ اس نظر سے پڑھیں تو آپ کو قرآن میں اس موضوع پر واضح رہنمائی ملے گی۔ مثال کے طورپر قرآن میں سورہ البقرہ کی آیت ۲۴۹،جس کا حوالہ اس تحریر میں اوپر آچکا ہے۔ قرآن کی اس آیت کی روشنی میں مسلم اقلیات کے مسئلے پر غور کیجیے تو اس سے مثبت قسم کا ایک صحت مند ذہن بنتا ہے۔ یہ آیت ان کو دفاعی نفسیات سے اٹھاکر اقدام کی نفسیات عطا کرتی ہے۔ اِس آیت میں انھیں تعمیرِمستقبل کا ذہن ملتا ہے نہ کہ صرف تحفّظِ حال کا ذہن۔ یہ آیت انھیں یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنے سماج میں نافع بن کررہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے سماج میں صرف رسیونگ اینڈ پر نہیں ہیں۔ وہ اپنے سماج میں دینے والے گر وہ (giver group) بن کر رہ سکتے ہیں نہ کہ صرف لینے والے گروہ (taker group)۔ قرآن کی یہ آیت اُن کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کرنے والی ہے جس کو تخلیقیت(creativity) کہاجاتا ہے۔
میرے نزدیک، فقہ الاقلیات کے نام سے نئی اصطلاح وضع کرنا ایک نا سمجھی کی بات ہے۔ جب قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایت موجود ہے اور جب صحابہ وتابعین کی زندگی میں اس سلسلے میں واضح تاریخی نمونہ پایا جاتا ہے تو ہم کو چاہیے کہ اسی کی رہنمائی میں مسلمانوں کا رویّہ معلوم کریں نہ کہ غیرضروری طورپر ایک نئی اصطلاح وضع کرکے مسلمانوں کو کنفیوژن میں مبتلا کردیں۔
دوسری بات کا تعلق آپ کی ذات سے ہے۔ آپ نے اپنے اِس مضمون میں اُس غیر اسلامی فعل کا ارتکاب کیا ہے جس کو قرآن میں کِتمانِ حق کہا گیا ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے فقہ الاقلیات کے موضوع پر لکھتے ہوئے ان لوگوں کا تذکرہ تو نمایاں انداز میں کیا ہے جو غیر مسلم اکثریت کے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کوصرف ’’اقلیت‘‘ کا درجہ دیتے ہیں اور اقلیت کی حیثیت سے ان کے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں، مثلاً ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور ڈاکٹر طٰہ جابر علوانی وغیرہ۔ مگراسی کے ساتھ آپ نے اس موضوع کے ایک اہم جُز کا سرے سے نام ہی نہیں لیا، اور وہ ہے الرسالہ کا نقطۂ نظر۔
یہ ایک معلوم اور معروف واقعہ ہے کہ اقلیات کے موضوع پر یہاں ایک اور مستقل نقطۂ نظر موجود ہے۔ اور وہ الرسالہ کا نقطۂ نظر ہے۔ ماہنامہ الرسالہ جو ۱۹۷۶ سے شائع ہورہا ہے، اس میں بار بار نہایت واضح انداز میں یہ بات کہی گئی ہے کہ غیر مسلم اکثریت کے علاقے میں جو مسلمان رہتے ہیں ان کی حیثیت اسلامی تعلیم کے مطابق، اقلیتی گروہ کی نہیں ہے بلکہ ان کی حیثیت داعی گروہ کی ہے۔ گویا کہ ہندستان دارِ دعوت ہے نہ کہ دارِ غیرمسلمین۔ اقلیتی گروہ کا لفظ یہ تصور دیتا ہے کہ ان علاقوں کے مسلمان دفاعی پوزیشن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، داعی گروہ کا لفظ مسلمانوں کو اقدامی گروہ کا درجہ دے رہا ہے۔ پہلا نقطۂ نظر اگر منفی نطقۂ نظر ہے تو دوسرا نقطۂ نظر مثبت نقطۂ نظر۔ پہلا نقطۂ نظر اگر سلبی نقطۂ نظر کی حیثیت رکھتا ہے تو دوسرے نقطۂ نظر کی حیثیت ایجابی نقطۂ نظر کی ہے۔ پہلا نقطۂ نظر اگر قومی نقطۂ نظر ہے تو دوسرا نقطۂ نظر آفاقی نقطۂ نظر۔
“فقہ الاقلیات‘‘ کا معاملہ میرے نزدیک کوئی سادہ معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اور اس سنگینی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کے اندر غیر صحت مند ذہن بنتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی گروہ کے لیے اس سے زیادہ تباہ کُن کوئی چیز نہیں کہ اُس کے اندر غیر صحت مند فکر پیدا کی جائے۔
نئی دہلی ۳۰ نومبر ۲۰۰۵ دعا گو وحید الدین