مسلم ایجنڈا

ایجنڈا ہمیشہ دو چیزوں کی بنیاد پر بنتا ہے۔ ماضی کا تجربہ اور حال و مستقبل کے امکانات۔ ان دونوں پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کا ایجنڈا یہ ہونا چاہیے کہ وہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں اور نئے امکانات کو جان کر ان کو بخوبی طورپر استعمال کریں۔

اس اعتبار سے غور کیجئے تو ہندستانی مسلمانوں کے لیے پہلا کام یہ ہے کہ وہ منفی طرزِ فکر کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں اور پوری طرح مثبت طرزِ فکر کو اختیار کرلیں۔ ۱۹۴۷ کے بعد بعض اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا ذہن یہ رہا ہے کہ انڈیا ان کے لیے ایک پرابلم کنٹری ہے۔ یہ سوچ پہلے بھی غلط تھی اور اب تو وہ آخری طورپر بے بنیاد ثابت ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شعوری طورپر نہ کہ مجبوری کے تحت، منفی سوچ اور منفی بولی کو بھُلا دیں۔ وہ شعوری فیصلے کے تحت مثبت طرز فکر کو پوری طرح اپنا لیں۔

نئے حالات کی سب سے پہلی خوش آئند علامت یہ ہے کہ لبرلائزیشن کی پالیسی نے اور بیرونی دنیا سے انڈیا کے تعلقات کے اضافے نے ملک کے سیاسی اور معاشی اور سماجی حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے زیادہ امید افزا پہلو یہ ہے کہ ہر قسم کے مواقع لا محدود حد تک کھل گئے ہیں۔ اس کی ایک علامت یہ ہے کہ جمعہ اور عید کے موقع پر مسجدوں کے سامنے کا روں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ اور ٹھیلے والوں کی جیب میں موبائیل ٹیلی فون بج کر یہ اعلان کرتا ہے کہ معاشی مواقع اب اتنے زیادہ بڑھ گیے ہیں کہ خواص سے لے کر عوام تک ہر ایک کو اس کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح سیاسی اور سماجی شعبوں میں بھی حالات پوری طرح بدل گیے ہیں۔

ان تبدیلیوں کا پہلا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے لیے اب خارجی حالات کے مقابلے میں دفاع یا تحفظ کا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا۔ اب مسلمانوں کوصرف یہ کرنا ہے کہ وہ نئے حالات اور نئے مواقع کو پہچانیں اور اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں جن کے ذریعے وہ نئے مواقع کو استعمال کرسکیں۔ تمثیل کی زبان میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بارش ہوچکی ہے۔ اب کسی کسان کو صرف اس کی بے عملی ہی محروم رکھ سکتی ہے، عمل کرنے والے کسان کے لیے اب محرومی کا کوئی سوال نہیں۔ یہاں اس سلسلے میں چند ضروری پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

۱۔ نئے حالات نے انگریزی زبان اور کمپیوٹر لٹریسی کی اہمیت بہت زیادہ بڑھا دی ہے۔ اب ترقی کے لیے انگریزی زبان اور کمپیوٹر لازمی ہوچکے ہیں۔ دار العلوم دیوبند نے اِس اہمیت کو محسوس کیا اور اپنے یہاں انگریزی اور کمپیوٹر کا کورس باقاعدہ طورپر جاری کردیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ملک کے تمام مدرسوں اور دینی اداروں کو بلاتاخیر ایسا ہی کرناچاہیے۔

۲۔ اب تک مسلم نوجوانوں میں یہ رجحان رہا ہے کہ وہ زیادہ تر آرٹ سائڈ (Humanities) میں داخلہ لے کر پڑھتے تھے۔ یہ رجحان اب زمانے کے خلاف رجحان بن چکا ہے۔ آرٹ سائڈ میں بی اے اورایم اے کرنے کی معاشی اعتبار سے اب بہت کم افادیت رہ گئی ہے۔ مسلم نوجوانوں کو اب بلا تاخیر یہ کرنا ہے کہ وہ انگریزی زبان اور ٹیکنیکل سَبجیکٹس میں اچھی لیاقت پیدا کریں۔ خوش قسمتی سے آج کل ہر جگہ اس کی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں۔مسلم نوجوانوں کو ان سہولتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

۳۔ یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ مسلمان شادیوں میں اور دوسری تقریبات میں بہت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ اس قسم کا خرچ فکری پس ماندگی کی علامت ہے۔ قدیم زمانے میں جب کہ خرچ کی مدیں بہت محدود تھیں تو لوگ شادیوں اور تقریبات میں اپنا پیسہ خرچ کیا کرتے تھے۔ اب پیسے کے استعمال کی دوسری زیادہ بڑی اور تعمیری مدیں وجود میں آچکی ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پیسے کو جدید تعمیری مدوں میں خرچ کرنا سیکھیں۔ مثلاً اعلیٰ معیار کے اسکول، ٹیوشن بیوروز، پروفیشنل ٹریننگ سنٹر، ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس،وغیرہ۔

۴۔ موجودہ زمانے میں ہر چیز کا معیار بدل گیا ہے۔ مثلاً پچھلے دَور میں خاندانی منجن کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اب سائنسی طریقوں سے بنائے ہوئے منجن نے اہمیت حاصل کرلی ہے۔ پچھلے دَور میں شاہی نسخے بڑی چیز سمجھے جاتے تھے۔ اب ساری اہمیت سائنٹفک فارمولے کی ہوگئی ہے۔ پہلے زمانے میں بیل گاڑی لوہے کے دُھرے پر چلتی تھی، اب بیل گاڑی بال بیرنگ کے اوپر دوڑتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ زمانے کی اس تبدیلی کوسمجھیں اور نئی تکنیک کو سیکھ کر ہر میدان میں اعلیٰ ترقی حاصل کریں۔

۵۔ ۱۹۴۷ کے بعد مختلف اسباب سے مسلمان رزرویشن کو اپنے لیے کامیابی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ جدید حالات نے ساری اہمیت کامپٹیشن کو دے دی ہے۔ اس کانتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب رزرویشن کی بات ایک خلافِ زمانہ نعرہ بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ملّی ڈکشنری سے رزرویشن کا لفظ نکال دیں۔ اور ساری توجہ محنت اور منصوبہ بندی پر لگائیں۔ موجودہ زمانے میں یہی ترقی کا واحد راستہ ہے۔

۶۔ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں میں سیاسی اعتبار سے نگیٹیو پالیسی کا طریقہ رائج ہوگیا۔ یہ طریقہ مستقل ملّی مفاد کے لیے سخت مہلک ہے۔ وہ جمہوری تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پازیٹیو سیاسی پالیسی کو اختیار کریں۔ یہی موجودہ زمانے میں اُن کے لیے کامیابی کاواحد راستہ ہے۔

۷۔ انتخابی پالیسی کے معاملے میں مسلمانوں کو اپنا ذہن مکمل طورپر بدلنا ہے۔ اب تک ان کا رجحان اِس معاملے میں یہ رہا ہے کہ پورے ملک کے لیے ایک ملّی پالیسی اختیار کریں۔ موجودہ حالت میں اِس قسم کی انتخابی پالیسی مسلمانوں کے لیے مفید نہیں۔ مفید سیاسی پالیسی صرف یہ ہے کہ مسلمان مقامی حالات کے اعتبارسے الگ الگ اپنی انتخابی پالیسی بنائیں۔ وہ ملکی پالیسی کا طریقہ ختم کردیں۔

۸۔ ۱۹۴۷ کے بعد سے مسلمانوں کے اوپر تحفظاتی ذہن غالب رہا ہے۔ وہ ملّی شناخت کے تحفظ کو سب سے بڑی چیز سمجھتے رہے ہیں۔ موجودہ گلوبلائزیشن کے دَور میں اِس قسم کی تحفظاتی پالیسی غیر مفید ہے۔ مسلمانوں کے لیے صحیح پالیسی یہ ہے کہ وہ ملّی شناخت کے بجائے دعوت کے اِحیاء کو اپنا نشانہ بنائیں۔ وہ ملک میں ایک داعی گروہ کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

۹۔ دَورِ جدید کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس نے میل ملاپ اور اختلاط (interaction)کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ یہ تبدیلی ترقیاتی سرگرمیوں سے بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے۔ ایسی حالت میں اب ’’علاحدہ مسلم پاکیٹ‘‘ کا تصور ایک فرسودہ تصور بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو علاحدہ مسلم پاکٹ جیسی تفریقی پالیسی کو مکمل طورپر ختم کردینا چاہیے۔ دورِ جدید میں ترقی کے اعلیٰ مقام پر پہنچنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے۔

۱۰۔ پچھلے سَوسال سے بھی زیادہ مدت سے تمام دنیا کے مسلمان اپنی آفاقیت کو ملّت سے جوڑے ہوئے تھے۔ دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ وہ اِس محدودیت کو ختم کردیں۔ وہ اپنی آفاقیت کو پوری انسانیت کے ساتھ جوڑیں۔ وہ جدید اصلاح کے مطابق، اپنے آپ کو گلوبل ولیج کا ایک حصہ سمجھیں۔ وہ بین الملّی سیاست کے بجائے بین الانسانی سیاست کو اختیار کریں۔ اِسی آفاقیت میں ان کی دینی اور ملّی ترقی کا راز چھپا ہوا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ منصوبہ بندی (planning) کے ساتھ کام کرنے کا زمانہ ہے۔ نہ صرف ہندستانی مسلمان بلکہ ساری دنیاکے مسلمان موجودہ زمانے میں منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ منصوبہ بندی عملی امکانات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ صرف اپنے جذبات کو جانتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات اور امنگوں کی بنیاد پر اپنے عمل کا نقشہ بناتے ہیں۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر وہ جذباتی اقدام تو بہت کرتے ہیں مگر منصوبہ بند عمل میں وہ ناکام رہتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اس مزاج کو بدلنا ہوگا۔ اگر انھوں نے اپنے اس مزاج پر قابو نہ پایا تو مستقبل میں بھی وہ اسی طرح ناکامی کی مثال قائم کریں گے جس طرح وہ ماضی میں ناکامی کی مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔

موجودہ مسلمانوں کو اگر مجھے ایک مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا کہ— جذباتی کارروائیوں سے بچئے اور سوچے سمجھے عمل کا طریقہ اختیار کیجئے، اور پھر کامیابی آپ کے لیے اتنا ہی یقینی بن جائے گی جتنا کہ آج کی شام کے بعد کل کی صبح کو سورج کا نکلنا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom