ایک خط اور اس کا جواب
ایک ضروری بات یہ عرض کرنا ہے کہ ماہ نامہ الرسالہ کے شمارہ نومبر 2005 میں جو مضمون ’جنت کے دروازے پر‘کے عنوان سے ہے شاید سہواً اس میں کئی باتیں نظر انداز ہوگئی ہیں۔
۱۔ اس میں جنت کو انسانی تہذیب کا ایک ارتقائی مرحلہ بتایا گیا ہے۔ جو انسانی ہاتھوں سے وجود میں آنے والا ہے۔ اور یہ سب سائنسی کرشموں سے ہوگا۔ گویا جنت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو کبھی بھی سائنسی سہولتوں کے ذریعے زمین کو جنت کی طرح بنا لیں۔ اس خیال کے تحت تو آج بھی بہت سے لوگ جنت ہی کے مالک کہلائیں۔ اور ماضی میں بھی رہے۔ اس مسئلے کا تعلق اللہ کی ہدایات اور قرآن اور رسالت سے قطعاً نہیں رہا۔
۲۔ برے لوگ الگ کر دئیے جائیں گے یعنی برے لوگ وہ ہوں گے جو اس سائنسی انقلاب میں کوئی رول ادا نہیں کرپائیں گے۔ اس طرح کفر وایمان کے مسئلے کے بجائے مسئلہ سائنسی سہارے کا ہوگیا۔
۳۔ بَعث بعد الموت کا مسئلہ سرے سے ختم ہی ہوگیا۔
۴۔ اس قسم کی سائنسی جنت میں اللہ کے وہ بندے جن میں انبیاء و رسل بھی ہیں وہ کیسے داخل ہوں گے۔
۵۔ قرآن کا وما أمر الساعۃ الا کلمح البصر کے عقیدے کاکیا ہوگا۔
۶۔ حشر ونشر نامۂ اعمال حساب وکتاب اور برزوا للہ الواحد القہار اور کل یأتیہ یوم القیامۃ فرداً۔ اور نفخ فی الصور وغیرہ ان تمام آیات کا کیا ہوگا۔
۷۔ زندگی جو موجودہ ہے، اس کا ابتلاء کے لیے عارضی ہونا اور اس دنیا میں اہل جنت کاسلیکشن ہونا جو سب کچھ آپ نے لکھا ہے اس کا کیا ہوگا۔ اور کیا سائنسی جنت جو انسان کے موجودہ تسلسل سے وجود میں آئے گی۔ اس میں موت وپیدائش کا موجودہ تسلسل رہے گا یا ختم ہوجائے گا۔ یہ سب باتیں اپنے انداز میں عنایت اللہ خاں مشرقی نے بھی لکھی ہیں۔ اسی الرسالہ کے دوسرے مضامین بھی اس مضمون کی نفی کرتے ہیں۔ یہ مضمون کیسے تحریر ہوگیا خدا کے لیے فوری طورپر اس پر غور فرمائیں۔ ایک اور مضمون لکھا جائے اور اس میں بات واضح کی جائے اور اس بات کو تمثیل قرار دیا جائے۔ (ڈاکٹر حمید اللہ ندوی، بھوپال)
جواب
آپ کے اس خط (۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۵) میں الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ کے بارے میں منفی تأثر کا اظہار کیا گیا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اسی پرچے کو پڑھ کر بہت سے لوگوں نے برعکس طورپر نہایت مثبت تاثر قبول کیا ہے۔ کئی ہندوؤں نے اس مضمون کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر مزید اسلامی لٹریچر کے مطالعے کی خواہش ظاہر کی۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ اس کو پڑھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں جنت کے دروازے پر پہنچ گیا ہوں، وغیرہ۔
۱۹ نومبر ۲۰۰۵ کی صبح کو دہلی میں میرے دفتر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ رسیور اٹھایا تو مہتاب احمد صاحب بول رہے تھے۔ وہ ضلع بجنور کے دھام پور میں رہتے ہیں۔ (Tel: 01344-220 361) انھوں نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا: مجھے آپ کی تحریروں نے خدا سے ملا دیا۔ الرسالہ (نومبر ۲۰۰۵) کو پڑھ کر آپ کے لیے میر دل سے بہت زیادہ دعائیں نکلیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کے اِس دَور میں جدید ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے آپ کی تحریریں بہت مؤثر ہیں۔ روایتی قسم کے لکھنے والے آج کے ذہن کو مطمئن نہیں کرسکتے تھے۔ یہ کام صرف آپ کی تحریریں کررہی ہیں۔
آپ الرسالہ کے مذکورہ مضمون کو دوبارہ پڑھیں تو مجھے یقین ہے کہ آپ کا اشکال اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یقینی طورپر یہ جان لیں گے کہ عنایت اللہ خاں مشرقی کی بات اور الرسالہ کی بات ایک دوسرے سے اتنی زیادہ مختلف ہے کہ دونوں کو ایک کہنا، آدمی کو مائنس مارکنگ کا مستحق بناتا ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ اِس مضمون کو دوبارہ تمثیل کے طورپر لکھنا چاہیے۔ میں عرض کروں گا کہ نومبر ۲۰۰۵ کے الرسالہ میں چھپنے والا یہ مضمون خود ہی ایک تمثیلی مضمون ہے۔ اس میں ایک سے زیادہ بار ’’گویا کہ‘‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ واضح طورپر بتا رہا ہے کہ یہ مضمون بطور تمثیل ہی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی نہایت واضح ہے کہ اِس مضمون کا مقصد متشکک ذہن کے لیے آخرت کی جنت کو ’’قابلِ فہم‘‘ بنانا ہے۔ اِس مضمون میں کہیں بھی ’’سائنسی جنت‘‘ یا ’’انسان کی تعمیر کردہ جنت‘‘کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس، اس میں صاف طور پر یہ بات موجود ہے کہ یہ جنت براہِ راست خدا کے حکم سے بنے گی (الزمر: ۶۹) اور خدا کے ’’فرشتے‘‘ اس کو اعلیٰ صورت میں بنائیں گے۔ اس مضمون میں بار بار قرآن کی آیتوں کے حوالے دیے گیے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضمون قرآنی آیات کی تفسیر کے طورپر لکھا گیا ہے نہ کہ کسی الگ نظریے کے تحت۔ اِس مضمون کو سمجھنے کے لیے نہ صرف خود مضمون کو گہرائی کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن کی محوّلہ آیتوں کا از سرِ نو مطالعہ کیا جائے۔
الرسالہ ماہ نومبر ۲۰۰۵ میں شائع شدہ مضمون کا مقصد خود جنت کو بتانا نہیں ہے بلکہ ایک معلوم واقعے کو لے کر غیر معلوم واقعے پر استدلال قائم کرنا ہے۔ یعنی مشہود (seen) کے حوالے سے غیرمشہود (unseen) کو قابل فہم بنانا۔ مذہبیّات میں یہ ایک معروف استدلالی اسلوب ہے۔
استدلال کا یہ اسلوب خود قرآن میں موجود ہے۔ قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر بَعث بعد الموت کو ثابت کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ زمین پر ہونے والے ایک طبیعی واقعے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ خشک زمین پر بارش ہوتی ہے اور پھر وہاں سرسبز درخت اور پَودے اُگ آتے ہیں۔ خشک زمین پر سبزہ اُگنے کے اِس واقعے کو لے کر فرمایا کہ: اِسی طرح مردہ انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔ (کذٰلک النشور، فاطر: ۹،کذلک الخروج، ق: ۱۱)
اِس طرح کی آیتوں پر غور کیجئے۔ خشک زمین سے پودے کا اُگنا واضح طور پر اسبابِ طبیعی کے تحت پیش آنے والا واقعہ ہے۔ اس کے برعکس، بعث بعد الموت ایک ایسا واقعہ ہے جو اسباب طبیعی کو توڑ کر بر اہِ راست حکمِ خداوندی کے تحت پیش آئے گا۔ اِس تشبیہہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں واقعے کی نوعیت بالکل ایک ہے۔ یہ تشبیہہ صرف تقریبِ فہم کے لیے ہے نہ کہ اصل صورتِ حال کو اس کی حقیقی نوعیت کے اعتبار سے بتانے کے لیے—قرآن کی اِس مثال سے مذکورہ معاملے کو بخوبی طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک لفظ میں، یہ اسلوبِ بیان دعوتی ضرورت کے طورپر ہے نہ کہ بیانِ حقیقت کے طورپر۔
الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ میں جنت کے بارے میں جو مضمون شائع ہوا ہے وہ جنت کی اصل حقیقت کو بتانے کے لیے نہیں ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ جدید ذہن کے لیے وقوعِ جنت کا امکان (probability) ثابت کیا جائے۔ اِس مضمون کا مقصد جنت کی واقعی حیثیت کو بتانا نہیں ہے بلکہ منکر اور متشکک لوگوں کے لیے جنت کے تصور کو قابل فہم بنانا ہے۔ اس مضمون کا مقصد جنت پر سائنسی استدلال ہے نہ کہ خود جنت کو سائنسی جنت ثابت کرنا۔ اس مضمون کا مقصد صرف یہ ہے کہ متشکک ذہن، اسلامی نقطۂ نظر کو قابلِ توجہ سمجھے اور پھر مزید مطالعہ کرکے وہ حقیقی تصوّر جنت کو دریافت کرسکے۔
قدیم مکّہ میں ایک مشرک پہلوان تھا اُس کا نام رُکانہ تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتا تھا۔ رسول اللہ نے ایک بار اس سے کہا کہ اے رُکانہ!اگر میں تم کو کُشتی میں پچھاڑ دوں تو کیا تم مجھے پیغمبر مان لوگے۔ اس نے کہا کہ ہاں۔ (قال رسول اللہ ﷺ: أفرأیت إن صرعتک أتعلم أنّ ما أقول حق، قال: نعم!) اس کے بعد دو بار کشتی ہوئی اور رسو ل اللہ نے دونوں بار رکانہ کو پچھاڑ دیا۔ ( سیرت ابن ہشام، جلد اول، صفحہ ۶۱۵)
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ جو شخص کسی پہلوان کو کشتی میں پچھاڑ دے وہ پیغمبر ہے۔ یہ صرف تقریبِ فہم کی بات تھی۔ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ رکانہ کے ذہنی سانچے کے مطابق، اس کو نبوت کے معاملے پر سوچنے کے لیے مجبور کیاجائے۔ یہ بات مخاطب کی نسبت سے تقریبِ فہم کے لیے تھی نہ کہ خود اصل واقعے کی نسبت سے حقیقتِ نبوت کا بیان۔
قدیم روایتی منطق میں استدلال کا مطلب صرف یہ ہوتا تھا کہ انکار کے مقابلے میں اقرار کو ثابت کرنا۔ اب سائنسی منطق کے مطابق، استدلال کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ کسی واقعے کے امکان (probability) کو ثابت کیا جائے۔ مذکورہ مضمون کو اسی اعتبار سے دیکھنا چاہیے۔ مذکورہ مضمون کے مخاطب مومنینِ جنت نہیں ہیں بلکہ اس کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں جنت کے بارے میں شکوک اور شبہات ہیں۔
جہاں تک جنت کے بارے میں میرے ذاتی نقطۂ نظر کی بات ہے۔ اس میں کسی کے لیے شک کا کوئی موقع نہیں۔ میرے ہزاروں شائع شدہ مضامین سے اور تذکیر القرآن سے دو اور دو چار کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ جنت کے بارے میں میرا عقیدہ عین وہی ہے جو تمام صلحاء امت کا ہمیشہ رہا ہے۔
مولانا محمد ذکوان ندوی مجھ کو بہت عرصے سے نہایت قریب سے جانتے ہیں۔ انھوں نے میری دوسری تحریروں کے علاوہ الرسالہ نومبر ۲۰۰۵ کے مذکورہ مضمون کو بھی پڑھا ہے۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ ذاتی معلومات کے ذریعے آپ کو میرا جو تعارف حاصل ہوا ہے اس کے مطابق، اِس پہلو سے میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ انھوں نے کہا—’’میرے نزدیک آپ کو جنت کی قرآنی معرفت (محمد: ۶) حاصل ہے۔ یعنی آپ کا تصورِ جنت قرآنی تصور جنت ہے نہ کہ سائنسی تصور جنت۔ مزید یہ کہ آپ کے اِس مضمون نے جدید ذہن کے لیے جنت کو آخری حد تک قابل فہم (understandable) بنادیا ہے‘‘۔