قانونِ حیات
قرآن کی سورہ نمبر دو میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللہ واللہ مع الصابرین۔ یعنی کتنے ہی چھوٹے گروہ بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں، اللہ کے اِذن سے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ: ۲۴۹)
قرآن کی اِس آیت میں اِذن سے مراد فطرت کا قانون (law of nature) ہے۔ یہ قانون، خالق فطرت نے قائم کیا ہے۔ اس لیے اُس کی حیثیت ایک حتمی قانون کی ہے۔ اس کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ یہ قانون اُسی طرح عمل کرتا ہے جس طرح رات کے بعد دن کا آنا، اور دن کے بعد رات کا آنا۔
فطرت کا یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ایک کثیر گروہ پر غالب آیا ہے۔ مثلاً دَورِ اول میں مکّہ کے مسلمان جو مقابلۃً قلیل تعداد میں تھے وہ اپنے حریف پر غالب آئے جو مقابلۃً ان سے بہت زیادہ تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں امریکا میں وہاں کے تاریکین وطن (emigrants)وہاں کے مقامی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ حالاں کہ تارکین وطن کم ہیں اور مقامی باشندے تعداد میں ان سے زیادہ ہیں، وغیرہ۔
اِس تاریخی ظاہرہ (phenomenon) پر موجودہ زمانے میں کافی مطالعہ کیا گیا ہے، اور واقعات کو لے کر اصول اخذ کیے گیے ہیں۔ اِس موضوع پر چھپنے والی کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ے جو برطانی مؤرخ ٹائن بی (وفات: ۱۹۵۴) نے طویل مطالعے کے بعد تیار کی ہے۔ اس کا نام تاریخ کا مطالعہ ہے:
A Study of History, by Arnold Joseph Toynbee
اِس تاریخی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں دوگروہ ہوں۔ ایک تعداد میں کم ہو اور دوسرا تعدادمیں زیادہ ہو۔ ایسے مقام پر خود فطری اسباب کے تحت، دونوں گروہوں کے درمیان دو مختلف قسم کا عمل (process) جاری ہوجاتا ہے۔ اقلیتی گروہ اپنے کو دفاعی پوزیشن میں محسوس کرتا ہے اِس لیے اس کے اندر یہ جذبہ اُبھرتا ہے کہ وہ اپنے حریف اکثریتی گروہ سے زیادہ محنت کرے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ محنت کرکے ہی وہ اپنے بقا (survival) کا انتظام کرسکتا ہے۔ دوسری طرف اکثریتی گروہ کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ عددی اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلے میں برتر ہے اس لیے اس کا مستقبل محفوظ ہے۔ اس کو کسی کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ اِس بے جا خود اعتمادی کی بنیاد پر اکثریتی گروہ کے اندر عمل کا جذبہ کمزور پڑجاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ تمام حالات میری موافقت میں ہیں، میں کم عمل کرکے بھی زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا ہوں۔
دونوں گروہوں کے درمیان اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے اندر خاموشی کے ساتھ دو مختلف عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ایک گروہ کے لیے ترقی کا ضامن بن جاتا ہے، اور دوسرے گروہ کے لیے تنزلی کا ضامن۔ فطرت کے قانون کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بننے لگتی ہے۔ اس کے برعکس، اکثریتی گروہ دن بدن غیر تخلیقی اکثریت(uncreative majority) بننے لگتی ہے۔ یہ عمل بلا اعلان خاموشی کے ساتھ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اکثریتی گروہ پر اقلیتی گروہ کے غلبے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن کے مطابق، فطرت کا یہ قانون جس بنیادی اصول پر مبنی ہے وہ صبر (patience) ہے۔ صبر کوئی پسپائی نہیں، بلکہ وہ قانونِ فطرت سے ہم آہنگی اور منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ مذکورہ صورتِ حال میں ایسا ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو صبر کی ضرورت نہیں۔ اس کی عددی برتری اس کے لیے ہر چیز کا بدل ہے۔ لیکن اقلیتی گروہ کے افرادکے اندر اِس سے مختلف سوچ بنتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے صرف ایک انتخاب ہے اور وہ صبر ہے۔ اِس طرح اقلیتی گروہ کے لیے صبر ایک جبری انتخاب (compulsive choice) بن جاتا ہے۔
اس طرح حالات کا دباؤ اقلیتی طبقے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں صبر کی پالیسی اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ وہ صبر کی روش کو ایک مجبوری کے تحت اختیار کرتا ہے لیکن صبر فطرت کا ایک عمومی قانون ہے۔ صبر کا طریقہ ہر حال میں مفید ہوتا ہے خواہ اس کو آزادانہ طور پر اختیار کیا جائے یا مجبورانہ طورپر، ٹھیک اسی طرح جیسے ٹانک کوئی شخص آزادانہ طورپر استعمال کرے یا مجبورانہ طورپر، ہر حال میں وہ اس کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
جب ایسا ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ صبر کی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو فطرت کے نظام کے تحت، اس کے اندر کئی صفات پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کی ترقی اور کامیابی کے لیے ضمانت کا کام کرتی ہیں۔
۱۔ موجودہ دنیا میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں یا اشتعال انگیزی کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں صبر کی روش کا مطلب عملاً یہ ہوتا ہے کہ ناخوش گواریوں کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا، منفی اسباب کے باوجود مثبت روش پر قائم رہنا، اِسی کا نام صبر ہے۔ اِس اعتبار سے صبر کی پالیسی اقلیتی افراد کے لوگوں کو اُس چیز کا حامل بنا دیتی ہے جس کو بلند فکری (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اِن لوگوں کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کو منصوبہ بند انداز میں کام کرنا کہا جاتا ہے۔ وہ شکایت اور احتجاج کو چھوڑ کر خود اپنے امکانات (potentials) کو بروئے کار لانے پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ اِس طرح صبر کی پالیسی اقلیتی گروہ کو تخلیقی گروہ بنانے کا سبب بن جاتی ہے۔
۲۔ صبر کی پالیسی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ کا وقت بے فائدہ کاموں میں استعمال ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ان کا وقت اور ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ تعمیری کاموں میں استعمال ہونے لگتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ داخلی استحکام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنی نسلوں کی تعلیم، اپنے اداروں کی تنظیم، اپنے افراد کی تربیت، اقتصادی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف ہونا، بے نتیجہ کاموں کو چھوڑ کر نتیجہ خیز (result-oriented) کاموں میں اپنے آپ کو لگانا، یہ گویا ان کا گروہی کلچر بن جاتا ہے۔
۳۔ اقلیتی گروہ کے اندر یہ تمام صفات فطری اسباب کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ یہ صفات اِس بات کی ضامن بن جاتی ہیں کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ان لوگوں سے آگے بڑھ جائیں جو عددی اعتبار سے اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں۔