نزولِ قرآن کا مہینہ
رمضان کا مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن میں ارشادہوا ہے کہ— رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کی ہدایت بناکر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ، پس جو کوئی تم میں سے اس مہینہ میں موجودہو وہ اس کے روزے رکھے (شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینات من الہدی والفرقان فمن شہد منکم الشہرفلیصمہ) البقرہ ۱۸۵
اس آیت سے رمضان میں روزہ کی سالانہ عبادت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قمری مہینہ میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ قرآن جیسی الہامی کتاب کاانسان کو دیا جانا بلاشبہہ انسان کے اوپر بہت بڑا نعام تھا۔اس انعام کی شکر گزاری یہی تھی کہ اس مہینہ کو خصوصی طورپر اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں گزارا جائے۔
یہاں قرآن کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ وہ لوگوں کے لیے رہنمائی ہے۔ قرآن ایک خدائی گائڈ بک ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کس طرح رہے کہ اس کو حقیقی کامیابی حاصل ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بہت بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ موجودہ دنیا نہ تو اہانت کی جگہ ہے اور نہ اکرام کی جگہ۔ یہاں کسی کو اگر سامان حیات کم ملے تو اس کو احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی کو زیادہ ملے تو اس کے لیے بھی درست نہیں کہ وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجائے۔ یہ دنیا حقیقتاً آزمائش کا مقام ہے۔ یہاں کی ہر حالت امتحان کی حالت ہے۔ اس لیے آدمی کی نظر اس پر ہونی چاہیے کہ اس نے اپنے ملے ہوئے حالات میں کیسا رد عمل پیش کیا، نہ یہ کہ وہ دیکھنے لگے کہ خود حالات مادی معنوں میں کیسے تھے اور کیسے نہیں تھے۔
دوسری خصوصیت قرآن کی یہ ہے کہ اس میں جو ہدایت دی گئی ہے وہ ایسے واضح دلائل کے ساتھ دی گئی ہے جو عقل انسانی کے عین مطابق ہے۔ قرآن مجرد حکم نامہ نہیں ہے، اسی کے ساتھ اس میں اعلیٰ سطح پر عقلی اطمینان کا سامان بھی موجود ہے۔
مثال کے طورپر قرآن میں قاتل کے لیے قصاص کی سزا کا حکم دیاگیا ہے۔ یعنی مجرم کے ساتھ وہی معاملہ کرنا جس کا ارتکاب اس نے دوسرے انسان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ حکم بظاہر سخت تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (البقرہ ۱۷۹) یعنی ایک قاتل کو مارنا بہت سے لوگوں کو زندگی دینا ہے۔ کیوں کہ اس طرح تم پورے معاشرہ کو بچا لیتے ہو۔
قرآن کی تیسری خصوصیت یہ بتائی کہ وہ فرقان ہے۔ یعنی وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا خدائی معیار (criterion)ہے۔ وہ جھوٹ کی ملاوٹ سے پاک کرکے، سچ کو اس کے اصلی روپ میں پیش کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال موسی علیہ السلام کا ید بضاء کا معاملہ ہے۔ بائبل میں اس کے بارہ میں یہودی عالموں نے لکھ دیا تھا کہ موسی نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا۔ اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج ۴:۶) یہ ایک خدا ئی معجزہ کی نہایت غلط تصویر تھی۔
چنانچہ قرآن میں اس کا ذکر کیا گیا تو اُس کو اِس طرح واضح کردیاگیا: واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء آیۃ اخری(طہ ۲۲) قرآن میں ید بیضاء کے ساتھ غیر سوء کی قید لگاکر اس لغو الزام کو دور کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کے سبب سے تھی بلکہ وہ آپ کی نبوت کے حق میں اللہ کی ایک عظیم نشانی تھی۔
نزول قرآن کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اس کتاب کو پکڑا جائے۔ اس مہینہ کو تمسک بالقرآن کا مہینہ بنا دیاجائے۔
روزہ دراصل یکسوئی کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ تمام غیر متعلق چیزوں سے کٹ کر آدمی ایک حقیقت اعلیٰ سے جڑ جائے۔ روزہ میں کھانا اور پانی چھوڑ دینا اس بات کی علامت ہے کہ بندہ اپنی بنیادی ضرورتوں تک کو بھول کر ہمہ تن قرآن اور صاحب قرآن کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔
رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر آدمی اپنے اندر روحانی طلب پیدا کرتا ہے۔ وہ قرآن میں غور کرکے اس سے اپنے لیے روحانی غذا لیتا ہے۔ وہ اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ خدا کی ہدایت ابتداء ً رمضان کے مہینہ میں اتری تھی، اب دوبارہ وہ قمری کیلنڈر کے اسی مہینہ میں مومن کے قلب میں اترتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ آدمی جو رمضان کے مہینہ کو اس ربانی طریقہ پر گزارے۔