فرق نہ سمجھنا
ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں شہر سے دورایک کھُلے مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ صبح سویرے کا وقت تھا۔ چاروں طرف سرسبز مناظر تھے۔ تازہ اور خالص ہوا کے نرم جھونکے آرہے تھے۔ اس بے آمیز ہوا میں سانس لینا نہایت خوش گوار معلوم ہورہا تھا۔ میرے اوپر ایک سرور کی کیفیت طاری تھی۔ مجھے شبلی نعمانی کا ایک شعر یاد آیا جس کو انھوں نے اسی قسم کے فکری ماحول سے متاثر ہو کر کہا تھا:
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد پیمائی
اُس وقت میرے ساتھ یونیورسٹی کے ایک استاذ وہاں موجودتھے۔ میں نے کہا کہ جس دنیا میں اتنی خوشگوار ہوا موجودہو وہاں کسی کو شراب پینے کی کیا ضرورت۔ میری بات سُن کر اُنھوں نے کہا: کیا معلوم، وہ لوگ دونوں چیزیں لے رہے ہوں۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ جُملہ گریمر کے لحاظ سے درست ہے،مگر وہ معنی کے اعتبار سے درست نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ نے شراب اور ہوا دونوں کو برابر قرار دے دیا۔ حالاں کہ ہوا ایک صحت مند انتخاب (healthy option) ہے۔ جب کہ شراب ایک مہلک چیز ہے، وہ سرے سے کوئی صحت مند انتخاب (option)ہی نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس دنیا میں ایسی چیزیں موجود ہوں جو کسی نقصان کے بغیر آپ کو سرور دے سکتی ہیں تو ایسی چیزمیں سرور تلاش کرنے کی کیا ضرورت جس میں اگر بالفرض کوئی وقتی سرور ہو تب بھی وہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ آدمی کی صحت کو تباہ کردے۔
اکثر حالات میں فکری غلطی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق نہیں کرپاتا۔ وہ صحت مند مشغولیت اور مضر مشغولیت میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے دونوں کو برابر کا درجہ دے دیتا ہے، اور مضر چیز میں بھی اُسی طرح مشغول ہوجاتا ہے جس طرح اُسے صحت مند چیز میں مشغول ہونا چاہیے۔ وہ اُس وقت تک متنبہ نہیں ہوتا جب تک اُس کے غلط انتخاب کا بُرا نتیجہ آخری طورپر اس کے سامنے نہ آجائے۔
ایک دوسری مثال سے اس معاملے کو سمجھیے۔ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ اسلام ایک کامل اور مکمل نظام حیات ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ پچھلے چودہ سو سال کی مدّت میں بہت کم لمحات ایسے آئے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اسلامی نظام عملاً دنیا میں قائم ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ناقابلِ عمل نظام ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اُن کا کہنا یہ ہے کہ دوسرے نظام مثلاً اشتراکی نظام بھی عملاً کبھی کامل صورت میں قائم نہ ہوسکا۔ اس سلسلہ میں وہ اشتراکیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
“اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اس نظریہ کے علم برداروں نے زبردست جدوجہد کی اور جان ومال کی ہر قربانی دی۔ حالانکہ وہ غیر طبقاتی معاشرہ جس کی خوش خبری کارل مارکس نے دی تھی، نہ پہلے کبھی دنیا میں وجود میں آیا اور نہ کمیونسٹ انقلاب پر تقریباً سو سال گزر جانے کے بعد کہیں قائم ہوا، بلکہ عوام، زار کی شہنشاہیت سے نکل کر انتہائی بے رحم آمریت کے پنجے میں گرفتار ہوگئے‘‘۔ (ماہنامہ میثاق، اپریل ۲۰۰۲، صفحہ ۷۸)
یہ ایک غلط تقابل ہے۔ اشتر اکیت ایک غیر فطری نظام ہے اس لیے وہ نہ قائم ہوا اور نہ کبھی وہ قائم ہوسکتا ہے۔ اُس کے قائم نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ عملی طور پر اُس کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ایک فطری نظام ہے، وہ مکمل طورپر قابلِ عمل ہے۔ مگر معترض کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس کو ایک غلط معیار(criterion) سے جانچ رہے ہیں۔
صحیح یہ ہے کہ اسلام کا نشانہ فرد ہے، نہ کہ سیاسی اور اجتماعی نظام۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ فردِ انسانی کے اندر اللہ کا خوف اور اللہ کی محبت پیدا کی جائے تاکہ وہ قول و عمل میں اللہ کی منشاء کے مطابق، زندگی گزارے۔ سیاسی اور اجتماعی نظام اسلامی مشن کا براہِ راست نشانہ نہیں۔ اس لیے اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا معیار انفرادی زندگی ہے، نہ کہ اجتماعی اور سیاسی نظام۔