انسانی اتحاد
انسانی اتحاد ہزاروں سال سے اعلیٰ ترین دماغوں کا خواب رہا ہے۔ تمام اصلاح پسند لوگ ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ مختلف انسانی گروہوں میں کس طرح اتحاد اور یگانگت پیدا کی جائے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ کوششیں نہ صرف عملی نتیجہ پیداکرنے میں ناکام رہیں بلکہ اس مقصد کے لیے کوئی قابلِ عمل فارمولا بھی اب تک وضع نہ کیا جاسکا۔
اس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ تقریباً تمام اہلِ دماغ اس معاملہ میں غیر عملی طرزِ فکر کا شکار رہے ہیں۔ مختلف مفکرین اور مصلحین اس معاملہ میں جو کچھ کہتے رہے ہیں، وہ بعض ظاہری یا جزئی فرق کے ساتھ صرف ایک ہے۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق پائے جاتے ہیں،خاص طورپر مذہبی فرق۔ انھوں نے کہا کہ یہ فرق کسی حقیقی اختلاف پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ صرف تنوع کو بتاتے ہیں۔ یعنی ایک واحد حقیقت کا مختلف صورتوں میں ظاہر ہونا۔
یہ نظریہ کبھی بھی مختلف لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر قابل قبول نہ ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف مذہبوں میں فرق کا پایا جانا، حقیقی اختلاف کی بنا پر ہے نہ کہ تنوع کی بنا پر۔ مثال کے طورپر کچھ لوگ خدا کو ایک مستقل اور باشعور ہستی کے طورپر مانتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے لوگوں کے نزدیک خدا کا لفظ محض ایک علامتی قدر(symbolic value) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک اس کا کوئی حقیقی یا مستقل وجود نہیں ہے۔ یہ دو انتہائی متضاد نظریات ہیں جن کوکسی بھی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی اتحاد کا صحیح اور ممکن فارمولا یہ ہے— ایک کو ماننا اور دوسرے کا احترام کرنا:
Follow one and respect all.
یہ فطرت کا ایک اصول ہے جس پر انسانی زندگی کا پورا نظام چل رہا ہے۔ بقیہ تمام معاملات میں ہمارا طریقہ یہی ہے۔ایسی حالت میں عقل اور فکر کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں بھی اسی اصول کو اختیار کر لیا جائے۔
انسانی اتحاد کا اوّل الذکرفارمولا بظاہر اپنے اندر ایک سماجی قدر(social value) رکھتا ہے مگر بالفرض وہ حاصل ہوجائے تب بھی وہ ایک اور عظیم تر چیز کی نفی کی قیمت پر حاصل ہوگا، اور وہ سچائی ہے۔ ہر انسان کی یہ فطر ی اور لازمی ضرورت ہے کہ اس کو یہ یقین ہو کہ میں نے سچائی کو پالیا ہے، میں سچائی پر کھڑا ہوا ہوں۔ یہ کسی فرد کے لیے اس کا اعلیٰ ترین اثاثہ ہے۔ یہ موجودہ دنیا میں کسی فرد کے لیے پُراعتماد زندگی کی ضمانت ہے۔ مگر مذکورہ قسم کا فارمولا انسان سے اس کا یہ فکری اثاثہ چھین لیتا ہے۔
جو معاشرہ اوّل الذکرفارمولے کی بنیاد پر بنے اس کے افراد صرف مادی حیوان کے مانند زندگی گزاریں گے۔ ان کا عقیدہ اپنے اندر صرف اضافی قدر(relative value) رکھنے والا ہوگا۔ ان کی اخلاقیات کی حیثیت صرف سماجی آداب(social manners) کی ہوگی۔ فوری خوشی (immediate pleasure) حاصل کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہ ہوگا۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور مادی ضرورتیں ہوں گی نہ کہ اعلیٰ آئڈیل۔ ان کی زندگی میں کوئی معرفت (discovery) نہ ہوگی جس کو انھوں نے تلاش کے بعد پایا ہو اور جو انھیں یہ احساس عطا کرے کہ انھوں نے اس حقیقت اعلیٰ کو پالیا ہے جس کو ان کی روح تلاش کررہی تھی۔
اتحاد انسانی کا اوّل الذکرفارمولا صرف ایک سوشل فارمولا ہے۔وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ایک اسکیم ہے۔ مگر یہ اسکیم کسی سماج میں اس قیمت پر قائم ہوتی ہے کہ اس کے افراد میں ذہنی ارتقاء (intellectual development) کا عمل رک جائے۔