دعوہ ایمپائر
لکشمی نواس متّل ۱۹۵۰ میں راجستھان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لندن میں اسٹیل انڈسٹری شروع کی۔ اِس میدان میں انھوں نے بہت ترقی کی، یہاں تک کہ اب ان کی متّل انڈسٹری (Arcelor Mittal) دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل انڈسٹری بن گئی ہے۔ انھوں نے اِس میدان میں ساری دنیا میں نمبر ایک پوزیشن حال کرلی۔
لکشمی متّل نے دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کو انٹرویو دیا ہے جو اخبار کے شمارہ ۲ جولائی ۲۰۰۶ میں شائع ہوا ہے۔ اِس انٹرویو کا عنوان یہ ہے:
Mittal has a message for India: Go ahead and conquer the world.
میں نے اس رپورٹ کواخبار میں پڑھا تو اچانک میرے ذہن میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ مادّی انڈسٹری کے میدان میں ایک آدمی اِس قسم کی بڑی بڑی بات بولتا ہے لیکن مذہب کے میدان میں کسی کے پاس بولنے کے لیے اس قسم کے الفاظ نہیں۔ حالاں کہ مذہب کے اندر دلوں کو جیتنے کی طاقت ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
Go ahead and conqure the people of the world.
اِس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آج مذہب کے نام سے لوگوں کو صرف اس کی ایک کم تر صورت(reduced form) لوگوں کے سامنے ہے۔ مثلاً مسٹر لکشمی متل، اسٹیل کو ایک عالمی انڈسٹری کا موضوع سمجھتے ہیں۔ جب کہ مذہب کا تصور ان کے ذہن میں یہ ہے کہ کچھ توہماتی عقائد کو مان لیا جائے، اور کچھ بے روح رسموں کو وقتی طورپر ادا کرلیا جائے۔ اس قسم کے کم تر مذہب کے لیے کسی کے دل میں یہ جذبہ نہیں ابھر سکتا کہ وہ اس کو لے کر اٹھے اور عالمی سطح پر کوئی فاتحانہ کارنامہ انجام دے سکے۔
اِس معاملے میں مسلمانوں کا حال بھی دوسروں سے کچھ مختلف نہیں۔ مسلمان جس اسلام کو اعتقادی طورپر مانتے ہیں وہ مکمل طورپر ایک محفوظ دین ہے۔ وہ تمام انسانوں کے دلوں کی آواز ہے۔ وہ ہر انسان کی روحانی تلاش کا جواب ہے۔ وہ انسان کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ اِس میں ذہنی انقلاب کا پورا سامان موجود ہے۔ اسلام کی یہی خصوصیات ہیں جس کی بنا پر پیغمبر اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میں اپنے عرب مخاطبین سے کہا تھا:
کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (البدایۃ والنہایۃ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۳) یعنی میں تم سے صرف ایک بات کا مطالبہ کرتا ہوں، اگر تم اس کو مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمھاری اطاعت کریں گے۔
مگر آج کے مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر بالفرض وہ ان الفاظ کو دہرائیں تو سننے والا اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ کیوں کہ آج اسلام کے نام سے جو مذہب لوگوں کے سامنے ہے وہ اُسی طرح ایک بگڑا ہوا مذہب ہے جس طرح دوسرے اہل مذاہب نے اپنے مذہب کو بگاڑ رکھا ہے۔ مسلمانوں کے پاس عملاً جو اسلام ہے، وہ اسلام ایک کم تر فارم (reduced form) ہے۔ یہ کم تردرجے کا اسلام نہ تو خود مسلمانوں میں کوئی جوشِ عمل پیدا کرسکتا ہے، اورنہ اِس قابلِ ہے کہ اس کو اہلِ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اس سے متأثر ہوکراس کو اپنا دین بنا لیں۔