مسلمان مسئلہ کیوں بن گیے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں محفوظ حالت میں ہم تک پہنچی ہیں اُن میں سے کچھ حدیثیں وہ ہیں جن میں آپ نے اپنی امت کو مستقبل کے کچھ فتنوں سے پیشگی طورپر خبر دار کیا ہے۔ اس قسم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میں آپ نے فرمایا: واذا وضع السیف فی امتی لم یرفع منہا إلی یوم القیامۃ (ابو داؤد، کتاب الفتن، الترمذی،کتاب الفتن، ابن ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی میری امت کے اندر جب تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اُٹھائی نہ جائے گی۔

سیف (تلوار) تشدد کی علامت ہے۔ اس قولِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر جب ایک بار متشددانہ طریقہ داخل کردیا جائے تو پھر وہ نسل در نسل جاری رہے گا۔ حتیٰ کہ اگر اس رجحان کو بدلنے کی خصوصی کوشش نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ وہ برابر امت کے اندر جاری رہے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی پیشین گوئی بالکل لفظی طورپر درست ثابت ہوتی ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے، خلیفۂ ثالث عثمان بن عفان کے آخری زمانہ میں سیف، بالفاظ دیگر، متشددانہ طریق کار امت مسلمہ کے اندر داخل ہوا، اس کے بعد پھر وہ کبھی ختم نہ ہوسکا۔ اِس وقت سے لے کر آج تک پوری امت کا یہ حال ہے کہ اُس کے کچھ افراد اگر عملی تشدد میں مشغول ہیں تو اس کے کچھ افراد فکری تشدد میں۔ کچھ لوگ اگر اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف گن اٹھائے ہوئے ہیں تو دوسرے لوگ براہِ راست یابالواسطہ طورپر اس کی تصدیق اور تبریر کرنے میں مشغول ہیں۔

اصل یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اُس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ مروجہ مذہب کے لوگ جب بھی دیکھتے کہ کوئی فرد یا گروہ اُن سے الگ کوئی مذہب اختیار کررہا ہے تو وہ اُس کے سخت مخالف بن جاتے۔ مذہبی رواداری (religious tolerance) جو موجودہ زمانے میں دکھائی دیتی ہے، اس زمانہ میں اس کا سرے سے کہیں وجود نہ تھا۔

یہی زمانی رُکاوٹ ہے جس کا سامنا پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کو پیش آیا۔ لوگ پیغمبر اور آپ کے اصحاب کے ساتھ جارحیت کی حد تک ناروا داری کا معاملہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اپنے وطن مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس وقت قرآن میں یہ حکم دیاگیا کہ: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ (البقرہ ۱۹۳)

اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کے جائز معاملہ میں تمھارے خلاف تشدد کررہے ہیں اور جارحیت کی حد تک جاکرتمھارے خلاف رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، اُن سے دفاعی جنگ لڑو، یہاں تک کہ مذہبی جبر(فتنہ) کی حالت ختم ہوجائے اور مذہبی آزادی کی حالت قائم ہوجائے۔ مذہبی جبر یا مذہبی ایذارسانی اپنے آپ میں ایک جارحانہ فعل ہے، اور دوسری جارحیت کی طرح، اس جارحیت کے خلاف جو جنگ کی جائے وہ بھی دفاعی جنگ ہے۔

پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے یہی مدافعانہ جنگ کی۔ یہ گویا ایک قسم کا وقتی آپریشن تھا۔ یہ آپریشن بہترین تربیت یافتہ انسانوں کے ذریعہ کیاگیا، اور یہ آپریشن اصحاب رسول کی اگلی ہی نسل میں تقریباً مکمل ہوگیا۔

جیسا کہ معلوم ہے، یہ آپریشن ہجرت مدینہ کے بعد شروع ہوا،پہلے عرب میں اور اس کے بعد ایرانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کے دائرہ میں۔ یہ آپریشن پیغمبر اسلام کے زمانہ میں شروع ہوا اورخلیفۂ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ یہ پورا کام خدا کی خصوصی مدد سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا بڑا آپریشن صرف پچیس سال کے مختصر عرصہ میں مکمل ہوگیا۔ قتال فتنہ کی آیت کا یہ مفہوم دوسرے نصوص کے علاوہ، عبد اللہ بن عمرکی تشریح سے ثابت ہے، جو صحیح البخاری میں ایک سے زیادہ مقامات پر آئی ہے۔

خلافت راشدہ کے بعد جب بنوامیّہ کی سلطنت شروع ہوئی تو عبد اللہ بن زبیر نے اس کے خلاف خروج کیا۔ اس کے نتیجہ میں عبد اللہ ابن زبیر اور بنو امیہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے درمیان جنگ پیش آئی۔ عبداللہ بن عمر ایک سینئر صحابی کی حیثیت سے مکہ میں موجود تھے، مگر اُنھوں نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی۔ عبداللہ بن زبیر کے کچھ ساتھی عبد اللہ بن عمر کے پاس گئے اور اس جنگ میں اُنھیں شرکت کی دعوت دی۔ اُن لوگوں نے قرآن کی آیت قتال فتنہ (الانفال ۳۹) کا حوالہ دے کر کہا کہ ہماری یہ جنگ قرآن کے اس حکم کے تحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔ فتنہ کے خلاف جنگ سے مراد مذہبی تشدد کے خلاف جنگ تھی۔ ہم نے لڑ کر اس فتنہ کو ختم کردیا۔اب تم لڑ رہے ہو تاکہ جو فتنہ ختم ہوچکا ہے وہ دوبارہ نئے نام کے ساتھ لوٹ آئے (فتح الباری، جلد ۸، صفحہ ۳۲، ۱۶۰)

تاہم حضرت عبد اللہ بن عمر کے اس احتجاج کے باوجود امت کے اندر تشدد کا طریقہ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ امت کی پوری تاریخ پر پھیل گیا۔ قتال فتنہ کے حکم سے مراد دراصل یہ تھا کہ مذہبی تشدد کے دور کو ختم کرکے مذہبی آزادی کا دور لایا جائے۔ مگر بعد کے دور میں اُس کو سیاسی معنی میں لے لیا گیا۔ اب اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ دوسری قوموں کے اقتدار کو ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار دنیا میں قائم کیا جائے۔ یہ قرآنی حکم کے معاملے میں ایک انحراف تھا، تاہم یہ انحراف عمل میں آیا، حتی کہ وہ پوری مسلم تاریخ پر چھاگیا۔

سیاسی حوصلہ مندوں کو یہ نظریہ بہت موافق نظر آتا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے بہت جلد پورے زور کے ساتھ اس کو پکڑ لیا۔ یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھا کہ اسلام عملاً کِشور کُشائی اور ملک گیری کا ایک مذہب بن گیا اور اسی کے ساتھ تشدد کا بھی۔ کیوں کہ کشور کُشائی اور ملک گیری کی مہم تشدد کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی۔ سیاسی حوصلہ مندوں کے اس عمل میں چند چیزوں سے خصوصی نظریاتی مدد ملی۔ اس طرح اُنھیں اپنی عملی سیاست کے لیے نظریاتی جواز بھی حاصل ہوگیا۔

ایک یہ کہ قدیم زمانہ کے رواج کے مطابق، اسلام کی تاریخ سیاسی نمونہ پر لکھی گئی۔ خلافت عباسیہ سے لے کر بعد کے زمانہ تک جتنی بھی تاریخیں لکھی گئیں، وہ سب کی سب قدیم پیٹرن پر لکھی گئیں۔ قدیم پیٹرن میں جنگ و فتح اور سیاسی معرکہ آرائیوں کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا اور انھیں کوتاریخ کی کتابوں میں ریکارڈ کیاجاتا تھا۔

ان سیاسی حوصلہ مندوں کو جن چیزوں سے نظریاتی تائید ملی، اُن میں سے ایک، تاریخ نویسی کا یہ قدیم طریقہ تھا۔ یہ تمام تاریخیں حقیقتاً مسلم بادشاہوں کی تاریخیں تھیں۔ اُن کی قائم کردہ ہر سلطنت خاندانی خلافت (dynasty) تھی۔ مگر ان تاریخوں کو ’’اسلامی تاریخ‘‘ کا نام دے دیاگیا۔ اس طرح مسلم خاندانوں کی یہ حکومتیں اسلامی حکومتیں قرار پائیں۔

اس سلسلہ میں دوسری نظریاتی تائید فقہ سے حاصل ہوئی۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فقہ عباسی سلطنت کے دورمیں مرتب ہوئی۔ اس میں وقت کے رجحان کے مطابق، نہ کہ قرآن اور سنت کی تعلیم کے مطابق، ساری دنیا کو دو علاقوں میں تقسیم کردیاگیا، دار الاسلام اور دار الحرب۔

دار الاسلام سے مراد وہ زمینی علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم تھی۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت ’’ابھی‘‘ قائم نہیں ہوئی۔ یہ فرض کر لیاگیا کہ یہ تمام غیر مسلم علاقے گویا امکانی طورپر مسلمانوں سے حالت جنگ (potentially at war) میں ہیں، اس لیے ان کو دار الحرب کا نام دے دیا گیا۔

دار الحرب اور دار الکفر کی اصطلاحیں بلا شبہہ اجتہادی ہیں، وہ کسی نصّ صریح پر مبنی نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے اجتہاد سے یہ اصطلاحیں وضع کیں وہ ایک حدیث کے مطابق، اس پر یقینا اجتہادی خطا کا اجر پائیں گے، مگر ان کو درست اجتہاد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاد کی تقسیم کے لئے صحیح طورپر دو ہی ابدی اصطلاحیں ہیں، دارالدعوہ، اور دارالاسلام۔ جہاں اسلام کا حکم قائم ہو جائے وہ دارالاسلام ہے اور جہاں ایسا نہ ہو وہ دار الدعوہ ہے۔ ان کے سوا کوئی تیسری اور چوتھی اصطلاح اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں۔

اس معاملہ میں دور اول کو لیجئے۔ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ اور مدینہ اور دوسرے تمام علاقے ایک ہی قسم سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سب کے سب دار الدعوہ تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں اسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس کے بعد مدینہ دار الاسلام بن گیا اور دوسرے علاقے، بشمول مکہ، دارالدعوہ کی حیثیت سے قائم رہے۔ اسی طرح عرب کے باہر کے ملکوں کی حیثیت بھی دارالدعوہ کی تھی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ملکوں کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کئے۔

بلاد کی اس تقسیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دارالاسلام کے علاوہ جو علاقے ہیں ان کو بھی سیاسی معنوں میں دار الاسلام بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس قسم کا نظریہ سراسر بے بنیاد ہے۔ دیگر علاقوں کے لیے اہلِ اسلام کی ذمہ داری صرف دعوت ہے، اول بھی اور آخر بھی۔ پر امن دعوت کے سوا کسی بھی قسم کی دوسری کارروائی اہل اسلام کے لیے جائز نہیں۔

فقہ کی کتابوں میں،اور دوسرے موضوعات کی کتابوں میں عام طور پر بلاد الکفر اور بلاد الکفار کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ اسلوب یقینی طورپر درست نہیں۔ غیر مسلم ملکوں کا ذکر ان کے اپنے معروف نام کے ساتھ کیا جانا چاہئے نہ کہ بلاد الکفر یا بلاد الکفار کے الفاظ میں۔ اس طرح کے معاملات میں ہمیں خود ساختہ طریقہ اپنانے کے بجائے انٹرنیشنل آداب کو اپناناچاہیے۔ اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر انسان کی جو فطرت ہے وہی خود اسلام بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر انسان امکانی طورپر مسلم ہے:

Every human being is potentially Muslim.

ایسی حالت میں ہمارا نقطۂ نظر دوسرے انسانوں کے بارے میں وہی ہونا چاہئے جوخود مسلمانوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ سارے انسان امکانی طورپر مسلم ہی ہیں۔ اسلام کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔

اسی طرح دشمن اور دوست کی تقسیم بھی عمومی طور پر درست نہیں۔ ایک گروہ اگر یکطرفہ طورپر اہل اسلام پر حملہ کردے تو ایسی حالت میں اہل اسلام وقتی طورپر دفاع کی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔ مگر بظاہر زیادتیوں کے باوجود،کسی گروہ کو مستقل طورپر دشمن سمجھ لینا درست نہیں۔ قرآن کے مطابق، اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے دشمن کو بھی امکانی طورپر اپنا دوست سمجھیں، وہ یکطرفہ حسن اخلاق کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں (حٰم السجدہ ۳۴)

ہجرت کے بعد مدینہ جب دارالاسلام بن گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مکہ دارالکفر یا دار الحرب ہوگیا۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ اگر بالفعل دار الاسلام تھا تو مکہ بالقوہ دار الاسلام، جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہوا۔ بلاد کی تقسیم کے بارے میں یہی صحیح اسلامی نقطۂ نظر ہے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ بلاد کی یہ تقسیم مکمل طورپر غیر سیاسی معنوں میں ہے نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ دوسرے اسباب کے علاوہ یہ دو اسباب، فقہ اور تاریخ، گویا اس مسلم سیاست کے لیے نظریاتی تائید کے ہم معنی بن گئے۔

انیسویں صدی کے آخر میں قدیم طرز کی مسلم سلطنتوں کا دور ختم ہوگیا۔ حالات کی اس تبدیلی کے بعد، مسلم دنیا میں یہ ذہن پیدا ہونا چاہیے تھا،انھیں اب نیے حالات کے مطابق، ازسرِ نو اپنی تیاری کرنا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ عین اُس وقت مسلمانوں میں وہ گروہ پیدا ہوا جس کو عام طورپر انقلابی مفکرین کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے قدیم جارحانہ سیاست کے حق میں ایک اور نظریاتی تائید فراہم کردی۔یہ اسلام کی سیاسی تشریح تھی۔ ان لوگوں نے قرآنی آیتوں کی نام نہاد انقلابی تشریح کرکے بتایا کہ اسلام کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے۔ کسی مسلمان کا اسلام اُس وقت تک مکمل ہی نہیں، جب تک وہ ایسا نہ کرے کہ یا تو اسلام کی حکومت بالفعل قائم کردے یا اسی راہ میں وہ اپنے آپ کو قربان کردے۔

اس جدید تشریح نے مذکورہ قسم کی غلطی کو عملی انحراف سے بڑھا کر عقیدہ کا درجہ دے دیا اور اس طرح سیاسی تشدد کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ کسی مسلمان کے لیے جنت کا سب سے زیادہ یقینی ٹکٹ ہے، اسلام کے نام پر تشدد کرنے والے مرد اور عورت سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔

فارسی کی ایک مثل ہے کہ پدرم سلطان بود۔ میرا باپ بادشاہ تھا۔ مذکور تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مسلمانوں کی ہزار سال کی تاریخ کا خلاصہ دو جملوں میں یہ ہے کہ دورِبادشاہت میں مسلمان اس احساس میں جی رہے تھے کہ پدرم سطان است،اور دور بادشاہت کے خاتمہ کے بعد اب وہ اس احساس میں جی رہے ہیں کہ پدرم سطان بود۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دور میں وہ دوسری قوموں سے اس لیے لڑ رہے تھے کہ وہ ان کی حاکمانہ حیثیت کو تسلیم کریں، اور اب اس لیے لڑرہے ہیں کہ وہ اُن کی کھوئی ہوئی حاکمانہ حیثیت کو اُن سے واپس لیں۔ یہی دو جملوں میں ہزار سالہ مسلم تاریخ کا خلاصہ ہے۔

اصل یہ ہے کہ جب فتنہ کاخاتمہ ہوا، دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب مذہبی تشدد کا دور ختم ہوا اور مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا تو اب ضرورت تھی کہ امن کے نظریہ پر اسلام کی پُرامن آئڈیالوجی کو واضح کیا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ اسلام کاتشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا اصل کنسرن صرف مذہبی آزادی کی حالت کا قائم ہونا ہے،اور وہ اب پوری طرح قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مذہبی آزادی کو استعمال کرکے دعوت وتعمیر کے کام کی پُرامن منصوبہ بندی کی جائے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔

میرے علم کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد صرف دو مسلم شخصیتیں ہیں جنھوں نے اس راز کو سمجھا اور اس کا اعلان کیا۔ ایک، عبداللہ بن عمرصحابی، اور دوسرے،عمر بن عبدالعزیز تابعی۔ مگر یہ نظریہ عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکا۔ وہ ایک انفرادی اظہار خیا ل بن کر رہ گیا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر نے ابن زبیر کے زمانہ میں جو بات کہی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد تھا، وہ اب ختم ہوگیا۔ اس لیے اب کسی اور چیز کو فتنہ بتا کر اس کے خلاف لڑائی چھیڑنا عملاً فتنہ کو نئے عنوان سے واپس لانے کا سبب بن جائے گا۔ یعنی آپ غیر اسلامی سیاست کو ختم کرنے کے نام پر حکمراں سے جنگ چھیڑیں گے۔ چونکہ آپ کی یہ جنگ اسلام کے نام پر ہوگی اس لیے حاکم آپ کی تشریح کے مطابق، اسلام کو اپنا حریف سمجھ لے گا اور غیر ضروری طورپر یہ کرے گا کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تحریک اٹھائیں، اُنھیں اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھ کر وہ انھیں کچل دے۔ اس طرح فتنہ کی حالت نئے عنوان کے ساتھ دوبارہ تاریخ میں واپس آجائے۔

حضرت عمر بن عبد العزیز کو پانچواں خلیفۂ راشدکہا جاتا ہے۔ اُن کے زمانے میں عمومی طور پر امن کی حالت قائم ہوگئی تھی۔ چنانچہ غیر مسلم قومیں کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگیں۔ اُس وقت اُن کے ایک گورنر نے کہا کہ اسلام کی یہ توسیع اگر اسی طرح جاری رہی تو خراج کی رقم بہت کم ہوجائے گی اور ہمارا بیت المال خالی ہوجائے گا۔حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا: ویحک ان محمداً بعث ہادیاً ولم یبعث جابیاً۔

اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تباہ کن کردار موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی مفکرین نے ادا کیا ہے۔ اُنھوں نے اسلام کی خود ساختہ تشریح کرکے مسلمانوں کو بتایا کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اس مکمل سیاسی نظام کو عملاً نافذ کیے بغیر اُن کے اسلام کی تکمیل نہیں ہوگی۔ یہ غلط تشریح بعض اسباب سے ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مجنونانہ طورپر ساری دنیا سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ اُن کے درمیان ایسے انتہاپسند علماء پیدا ہوگیے ہیں جو اس معاملہ میں خود کُش بم باری کو استشہاد (طلب شہادت) قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مفروضہ دشمن کو مارنے کے لیے تم خود کُش بم باری کی حد تک جاسکتے ہو اور اس طرح اپنی جنت کو یقینی بنا سکتے ہو۔

قرآن میں جہاد کا لفظ پُر امن جدوجہد کے معنی میں ہے۔ بعض اوقات جہاد کے لفظ کو توسیعی معنیٰ میں قتال یا پُر تشدد طریق کار کے لیے استعمال کیا گیا۔ مگر بعد کے زمانہ میں جہاد کوعملاً قتال کا ہم معنیٰ بنا دگیا اور اُس کو عملی طورپر پُر تشدد طریق کار کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا، جو کہ بلاشبہہ غلط تھا۔

صوفیا اسلام کے اسی پُر امن طریق کار کے نمائندے تھے۔ اُنھوں نے ساری دنیا میں بڑے بڑے دعوتی کام کئے۔ مگر پوری تاریخ میں جہاد (بمعنی قتال) کا تصور اتنا غالب تھا کہ صوفیاء کے طریقہ کو فراریت (escapism)کے ہم معنی سمجھا گیا۔ صوفیاء کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ پُر امن طریق کار کو ایک مکمل آئڈیالوجی کے طورپر مدلّل اور مفصل کرکے پیش کریں۔ اس لیے علمی اعتبار سے صوفیاء فراریت کے درجہ میں رہے، وہ اسلام کی مین اسٹریم کے نمائندہ نہ بن سکے۔

قرآن کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قتال سے مراد متشددانہ طریقِ کار ہے اور جہاد سے مراد پُر امن طریقِ کار۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ جہاد کو قتال کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس طرح جہاد کے حوالہ سے پُر امن طریقِ کار کا تصور تاریخ سے عملی طور پر حذف ہوگیا۔

موجودہ دنیا مسابقت کے اصول پر چل رہی ہے۔ یہاں ہمیشہ ایک اور دوسرے کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آدمی کے لیے صرف دو ممکن انتخاب ہے۔ ایک، حالتِ موجودہ (status quo) کو مان لینا۔ اور دوسرے، اگر وہ ماننا نہیں چاہتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ مکمل طورپر پُر امن دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری کرنا۔ ان دو کے سوا جوصورت ہے وہ صرف مزید تباہی کی صورتیں ہیں، وہ یقینی طورپر کامیابی کی صورت نہیں۔

آج سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جہاد بالقرآن کے اصول کو عام کیا جائے۔ یعنی اسلام کو ایک پُرامن آئڈیا لوجی کے طورپر دنیا کے سامنے لایا جائے۔ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کا نشانہ اقتدار نہیں ہے، بلکہ دعوت ہے۔ اسلام میں دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔

اس مقصد کا تقاضا ہے کہ ایک طرف صبر کے ذریعہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالفاظ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا قائم کی جائے۔ اور دوسری طرف پُر امن دعوتی عمل کو لوگوں کے درمیان مؤثر طورپر چلایا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom