خبر نامہ اسلامی مرکز 176
۱۔ شانتی گری آشرم(انسٹی ٹیوشن ایریا، نئی دہلی) میں ۶ مئی ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں بطور چیف گیسٹ بلایا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں امن کی اہمیت کو بتایا، اور یہ بتایا کہ اسلام میں امن پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔ اِس پروگرام میں زیادہ تر تعلیم یافتہ ہندو شریک ہوئے۔ ان میں اکثریت کیرالا والوں کی تھی۔ اس میں سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے حاضرین سے اسلام کے موضوع پر گفتگو کی۔ اس کے علاوہ اسلامی بروشر اور اسلامی پمفلٹ بھی انھیں مطالعے کے لیے دئے گئے۔
۲۔ لائف پازٹیو(نئی دہلی) کی طرف سے انڈیا ہیبی ٹٹ سنٹر کے ہال میں ۲۴ مئی ۲۰۰۶کو ایک سیمنارہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ ہر مذہب کے نمائندے کے لیے مشترک ٹاپک یہ تھا—آپ کے مذہب میں اسپریچولٹی کا تصور کیا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ روحانیت کا ہم معنیٰ لفظ اسلام میں الربّانیۃ ہے، یعنی خدارخی زندگی۔ تقریرمیں بتایا گیا کہ اسلام میں روحانیت کوئی پُر اسرار چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق روز مرّہ کی زندگی سے ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں روحانی اور انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنا، یہی اسلامک اسپریچویلٹی ہے۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم بھی اس پروگرام میں شریک ہوئی۔انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور دعوتی پمفلٹ لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق کے ساتھ لیا۔
۳۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۵ مئی ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز کو یہاں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان کی تقریر کا موضوع یہ تھا:
Human Values in Islam
اِس موضوع پر انھوں نے ۴۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام ہوا۔ لوگوں کے بیان کے مطابق، یہ پروگرام کافی کامیاب رہا۔ سی پی ایس کی ٹیم نے بھی اس موقع پر یہاں شرکت کی اور دعوتی بروشر اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اس سے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
۴۔ اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کی طرف سے ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ اس میں ایس آئی او کے منتخب افراد شریک ہوئے۔ یہ ایک ہفتے کا پروگرام تھا۔ اس کی کارروائی ہمدرد پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے یکم جون ۲۰۰۶ کو وہاں کے ہال میں ایک تقریر کی اس تقریر کا موضوع یہ تھا:
How to Realize God
تقریرکے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے افراد نے بھی شرکت کی، اور طلبا کے درمیان دعوہ بروشر تقسیم کیے۔ طلباء نے اس کو شوق کے ساتھ لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۵۔ گلوبل ایکسپوزیشن اینڈ مینیجمنٹ سروس پرائیویٹ لمیٹڈ (نیپال) گذشتہ ۹ برس سے نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو میں ’نیپال بک فئر‘‘ کا اہتمام کررہا ہے۔ ۲ جون تا ۱۰ جون ۲۰۰۶ء اس کا دسواں بک فئر تھا۔ اِس دسویں بک فئر میں پہلی بارگڈ ورڈ بُکس نئی دہلی (Goodword Books) کی طرف سے وہاں اسلامی بک اسٹال لگایا گیا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ اور قرآن کے نسخے اور دیگر اسلامی کتابیں خریدیں۔ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والوں کو صدر اسلامی مرکز کی دعوتی کتابیں اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے بر وشر دیے گیے۔ نیپال کے وزیر تعلیم نے بھی اس بک اسٹال کا معائنہ کیا،اور بک فئر میں اسلامی کتابوں کی موجودگی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھیں ترجمۂ قرآن (انگریزی) کا ایک نسخہ اور سی پی ایس کے بر وشر اور کچھ مزید دعوتی کتابیں دی گئیں، جن کو انھوں نے ادب اور احترام کے ساتھ قبول کیا۔
۶۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۵ جون ۲۰۰۶ کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت ایک انٹرویو نشر کیاگیا۔ اس کے اینکر مسٹر پنکج تھے، اور جواب دینے والوں میں صدر اسلامی مرکز اور مسٹر پربھاش جوشی۔ موضوع یہ تھا کہ عبادت گاہوں میں کیا خواتین جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ خواتین کا درجہ عمومی طورپر اسلام میں کیا ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیاگیا۔
۷۔ انگریزی روزنامہ دکن ہیرالڈ(Deccan Herald) کے چیف کرسپانڈنٹ مسٹر او۔پی۔ورما (مقیم دہلی) نے ۱۹ جون ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو رکارڈ کیا۔ وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا موضوع دوستی (friendship) ہے۔ وہ اِس کتاب میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے، اس لیے تمام مذاہب کے درمیان دوستی عین فطری ہے۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ مذاہب میں یکسانیت یا عدم یکسانیت فلسفۂ مذہب کا موضوع ہے، دوستی کے مسئلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ ہی ایک دوسرے سے نہیں لڑتے، بلکہ خود ایک مذہب کے لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ مثال کے طورپر مہابھارت کی لڑائی میں دونوں فریق ہندو تھے، اس کے باوجود وہ آپس میں لڑے۔ اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کا مذہب ایک ہے لیکن ۱۹۷۱ میں دونوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی۔ اس لیے دوستی کا صحیح فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبوں کے درمیان مین کارڈ(main card) ایک بتایا جائے، بلکہ اس کا فارمولا باہمی احترام ہے یعنی:
Follow one and respect all.
۸۔ دہلی کے ہندی روزنامہ ہندستان کے نمائندہ مسٹر فضلِ غفران نے ۲۰ جون ۲۰۰۶ کو اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ’’مسلم سماج اور مسلم مسائل‘‘ تھا۔ اس سلسلے میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کی وضاحت کی گئی۔
۹۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر(نئی دہلی) میں ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں کیندریہ ودّیالیہ کے تمام اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے ’’بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوال اور جواب ہوا۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ رہا۔ حاضرین نے سوال کیا کہ آپ جو افرادتیار کررہے ہیں وہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ وہاں ہماری ٹیم کچھ لوگ موجود تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر مسٹر رجت ملہوترا اور سعدیہ خان نے اس سلسلے میں اپنا تجربہ بتایا۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان سی پی ایس کے دعوہ پملفٹ اور بروشر تقسیم کیے گئے۔
۱۰۔ سنٹر فار کلچر رسورسز اینڈ ٹریننگ (CCRT) کے تحت نئی دہلی میں ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ ڈسکشن یونی سیف بلڈنگ(UNICEF) کے ہال میں ۳ جولائی ۲۰۰۶ کو ہوا۔ امریکا کے پروفیسروں کی ایک ٹیم انڈیا آئی تھی۔ انھیں کی درخواست پر یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے اسلام اور ہندستان کے موضوع پر ایک تقریر کی اور سوالات کے جوابات دئے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔
۱۱۔ نیو ورلڈ موومنٹ(نئی دہلی) کے زیر اہتمام ۴ جولائی ۲۰۰۴ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ایک سیمنار ہوا۔ اس کے صدر سوامی اوم پورن سوتنتر تھے۔ ا س میں دہلی اور دہلی کے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک تھے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Integrated Model of Development
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ صحیح طورپر اس کا عنوان یہ ہونا چاہیے:
Spiritual Model of Integrated Development
حدیث رسول کی روشنی میں انھوں نے بتایا کہ اختلاف زندگی کی ایک حقیقت ہے اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔
۱۲۔ ۱۱جولائی ۲۰۰۶ کو ای ٹی وی(نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کی گفتگو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، پاپولیشن ڈے سے تھا۔ جواب کے دوران بتایا گیا کہ پاپولیشن کنٹرول کاتعلق، فتاویٰ سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق، نیشنل پالیسی سے ہے۔ اِس معاملے میں حکومت جو پالیسی بنائے گی وہی مسلمانوں کی پالیسی بھی ہوگی۔ ان کی پالیسی اس سے الگ نہ ہوگی۔
۱۳۔ ترکی کا ایک ادارہ ہے اس کا نام یہ ہے:
Inter-civilizational Inter-cultural Dialogue for Understanding and Peace
اس کی شاخ انڈیا میں انسل بھون (نئی دہلی) میں قائم ہے۔ اس کے پریزیڈنٹ مسٹر بلند(Bulent Cantmur) ۱۱ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنی ٹی وی ٹیم کے ساتھ مرکز میں آئے۔اور صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، عالمی اسلامی تحریکیں، عالمی امن، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی وغیرہ سے تھا۔ ان موضوعات پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوتی رہی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ موجودہ زمانے کا سکولرنظام، عین وہی چیز ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں معاہدۂ حدیبیہ کی شکل میں پیش آیا تھا۔ یعنی ٹکراؤ کو اوائڈکرکے مواقع کو استعمال کرنا۔
۱۴۔ چینل ۷۔ٹی وی (نوئیڈا) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر آشیش جوشی نے ۱۸ جولائی ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوال کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ کیااردو تعلیم مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ نہیں۔اردو اب مسلمانوں کی کلچرل زبان بن چکی ہے۔ مسلم کلچر کے تحفظ کے لیے بلا شبہہ اس کی اہمیت ہے۔ لیکن تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر وقت کا شعور پیداہو۔ وہ وسیع تر ذہن کے ساتھ اپنے معاملات کو سمجھیں اور اس کی مؤثر منصوبہ بندی کریں۔ اِس مقصد کے لیے ماڈرن ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔ ماڈرن ایوکیشن کے بغیر مسلمان کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
۱۵۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی) کے کرسپانڈنٹ مسٹر سید مجیب امام نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنے ٹی وی کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق اردو اسکول سے تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ مرکزی گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس ایریا میں مسلمان بارہ فیصد ہیں وہاں اردو میڈیم اسکول کھولے جائیں۔ کیا یہ مسلمانوں کا اپیزمنٹ (appeasement) ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اپیزمنٹ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ پولٹکل زبان میں بولنا ہمارا طریقہ نہیں۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کو ماڈرن ایجوکیشن میں لایا جائے۔ جس میں وہ پچھڑ گئے ہیں۔
۱۶۔ نئی دہلی کے انگریزی ماہ نامہ لائف پازیٹیو (Life Positive) کی نمائندہ مز جمنا (Jamuna Rangachari) نے ۲۸ جولائی صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، زیادہ تر، اسلام اور اسلامی تعلیمات سے تھا۔ جو باتیں بتائی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسلام کی ابتدائی تین جنریشن صحیح اسلامی طریقے پر رہے گی۔ اِن تین جنریشن کو قُرونِ ثلاثہ یا قرونِ مشہود لہا بالخیر کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ان تین کے بعد مسلمانوں میں بگاڑ آجائے گا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ آج اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جن کا تعلق ابتدائی تین نسلوں کے بعد سے ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ اسلام کیا ہے، تو آپ ابتدائی تین نسلوں کو دیکھیے۔ یعنی دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ بعد کے زمانے کو لے کر اسلام کے بارے میں رائے بنانا درست نہیں۔
۱۷۔ نئی دہلی کے این ڈی ٹی وی(NDTV) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اور اینکر مز نغمہ سحر نے ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، اِس مسئلے سے تھا کہ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔ جواب میں بتایاگیا کہ ہندستان کے مسلمان اِس ملک میں بہت ترقی کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ۔ مسلمانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں کی رپورٹ میڈیا میں نہیں آتی۔ اِس لیے وہ لوگ اس کو بہت کم جانتے ہیں جن کے لیے خبریں جانے کا ذریعہ صرف میڈیا ہے۔
۱۸۔ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۳؍ اگست ۲۰۰۶ کی شام کو نرمل دیش پانڈے، وغیرہ نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز بھی اس میں شریک ہوئے۔ ڈسکشن کا موضوع آزادی اور قومی اتحاد تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے پچھلے ساٹھ سال کے دوران ہونے والے اپنے تجربات بیان کیے۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد، ہندستان کی قومی روایت میں شامل ہے۔
۱۹۔ مولانا شمس الدین ندوی بھوپالی تین مہینے (مئی، جون، جولائی ۲۰۰۶) کے لیے جاپان گئے تھے۔ وہاں ان کا قیام تویاما(Toyama) میں تھا۔ یہ شہر ٹوکیو سے پانچ سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو نئی دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ مولانا شمس الدین ندوی نے بتایا کہ جاپان میں انھوں نے مختلف لوگوں کے درمیان الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ ان کے ذریعہ سے الرسالہ مشن کی کتابوں کا دو مکمل سیٹ جاپان پہنچا ہے۔ اس طرح انشاء اللہ جاپان میں الرسالہ مشن کی اشاعت جاری رہے گی۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان، شاہد اعوان جو جاپان میں تجارت کرتے ہیں۔ انھوں نے ’’انسان کی منزل‘‘نامی کتاب پڑھ کر کہا کہ اس کتاب کو پڑھ کر کوئی بھی منکر، خدا کے وجود کا قائل ہوجائے گا۔ اس میں مولانا نے خدا کا نام ذکر کئے بغیر خدا کا مکمل تعارف پیش کردیا ہے‘‘۔مولانا شمس الدین ندوی نے جاپان میں قیام کے دوران ’’تذکیر القرآن ‘‘کے ذریعے وہاں کے لوگوں کے درمیان درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔
۲۰۔ ایک نئی کتاب تیار ہو کر پریس میں زیر طبع ہے۔ اس کا نام’’ہندــپاک ڈائری‘‘ ہے۔ یہ کتاب گویا برّ صغیر ہند کی سو سالہ تاریخ کا ایک مختصر جائزہ ہے۔ یہ کتاب ۲۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ انشاء اللہ یہ کتاب بہت جلد شائع ہو کر منظر عام پر آجائے گی۔