سفر امریکہ -2
گارڈن گروو (Garden Grove) امریکہ کا ایک شہر ہے جو لاس انجلیز کے قریب پیسفک سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اس کی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اسلامک سوسائٹی یہیں پر 1962 میں قائم ہوئی۔ اپنے دستور کے مطابق یہ ایک غیر سیاسی (Non-political) ادارہ ہے۔ اس میں برابر ترقی ہوتی رہی۔ اب وہ پانچ ایکر سے زیادہ بڑے رقبہ میں قائم ہے۔ اس کے اندر مسجد ،کا نفرنس روم ، لائبریری ، اسکول، وغیرہ واقع ہیں۔ اس سوسائٹی کے موجودہ ڈائرکٹر ڈاکٹر مزمل حسین صدیقی ہیں ۔سو سائٹی کی ہر چیز امریکی معیار کے مطابق ہے۔ اس کے اسکول کو دیکھتے ہوئے ہم ایک بند دروازہ پر پہنچے ۔ معلوم ہوا کہ اس کے اندر لفٹ لگی ہوئی ہے۔ اس لفٹ پر سوسائٹی کو 45 ہزار ڈالر خرچ کر نا پڑا ۔ یہاں کا قانون یہ ہے کہ ہر اسکول جو گراؤنڈ سے اوپر ہو ، خواہ وہ صرف ایک منزل ہو،اس میں لفٹ (Elevator) لگانا ضروری ہے، تاکہ معذور طالب علموں کو اوپر چڑھنے میں کوئی مشکل نہ پیش آئے۔
امریکہ میں معذوروں (Handicapped) کا ہر سطح پر بے حد خیال کیا جاتا ہے ۔ ہر جگہ انھیں خصوصی رعایت دی جاتی ہے۔ یہ صرف لفظی قانون نہیں ہے، بلکہ اس پر باقاعدہ عمل ہوتا ہے۔ سوسائٹی کا اسکول اس وقت تک منظور نہیں کیا گیا جب تک اس نے لفٹ نہ لگالی ۔ اب بھی اس کا جدید ترین طرز کا "کیچن"غیر منظور شدہ ہے ، کیوں کہ اس کے طعام خانے کے دروازہ پر چوکھٹ لگی ہوئی ہے جو معذوروں کی پہیہ دار گاڑی کے بآسانی گزرنے میں رکاوٹ ہے۔ واضح ہو کہ فی الحال سوسائٹی کے اسکول میں کوئی معذور طالب علم موجود نہیں۔
اسلامک سوسائٹی میں مسلم بچوں کے لیے ایک اسکول قائم ہے۔ یہ اسکول بھی جدید معیار کے مطابق ہے ۔ ایک اجلاس میں بچوں نے عربی اور انگریزی میں تقریریں کیں ۔ اس طرح کے پروگرام ہندستان میں بھی مکاتب و مدارس میں کیے جاتے ہیں۔ مگر یہاں بچوں نے جس طرح تقریریں کیں، ان کا معیار ہندستانی طلبہ سے بہتر نظر آیا۔ حسان صدیقی (11سال) نے عربی میں تقریر کی۔ یہ تقریر بالکل عرب لہجہ میں تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی عرب بچہ بول رہا ہے ۔ اسلامک سوسائٹی کی طرف سے ایک ماہانہ میگزین بھی نکلتا ہے جس کا نام آرینج کر یسنٹ (The Orange Crescent) ہے۔
امریکہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہاں ہر چیز کا ایک اسٹینڈرڈ قائم ہو گیا ہے۔ ملک کے ایک حصہ میں چیزوں کا جو معیار ہے ، وہی آپ کو پورے ملک میں نظر آئے گا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ نے امریکہ کے ایک شہر کو دیکھا ہو تو آپ نے تمام شہروں کو دیکھ لیا :
If you have seen one city, you have seen them all.
اس ماحول کا نتیجہ یہ ہے کہ یہاں جو اسلامی کام ہو رہے ہیں ، وہ بھی، کم از کم ظاہر کے اعتبار سے جدید معیار کے مطابق ہیں۔ ہندستان میں ہمارے بزرگوں نے دعوت کا کام زیادہ تر پست طبقات میں کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں اسلام کا معیار بھی پست ہو گیا۔ امریکہ میں عمومی طور پر پست و بلند کا یہ فرق نہیں ہے ، اس لیے یہاں اسلام کا کام کرنے والوں کو بھی اپنا معیار بلند رکھنا پڑتا ہے،ورنہ یہاں کے ماحول میں وہ بے قیمت ہو کر رہ جائیں۔
امریکہ میں بڑی تعداد میں ایسے مراکز قائم ہیں جن کو یہاں کی اصطلاح میں "اسلامک سنٹر" کہا جاتا ہے ۔ ہندستانی اصطلاح میں ان کو وسیع تر مسجد کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں مرکزی طور پر ایک مسجد ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ دوسرے تعلیمی اور ثقافتی شعبے بھی ۔ یہ مراکز یہاں کے مسلمانوں کے لیےنقطۂ اتحاد یا اجتماعی شیرازہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اس قسم کے ایک مرکز کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں کے وابستہ مسلمانوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔ وہاں میں نے لوگوں کے اجتماع میں ایک تقریر کی ۔ اس میں میں نے بتایا کہ اتحاد کی واحد قیمت اختلاف کو برداشت کرنا ہے۔ اختلاف کے باوجو د متحد ہونے ہی کا دوسرا نام اتحاد ہے۔اس سلسلے میں صحابہ کرام کی بہت سی مثالیں دیں (اس تقریر کا ٹیپ مرکز میں موجود ہے)
تقریر کے بعد بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد مجھ سے ملے۔ انھوں نے کہا کہ "اختلاف کے باوجوداتحاد "کا یہ نظریہ ابھی تک ہم کو بتایا ہی نہیں گیا۔ حالاں کہ اس معاملے میں اہم ترین بات یہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ خواہ مشرق کے مسلمان ہوں یا مغرب کے مسلمان ، سب کی واحد کمی یہ ہے کہ ان میں حقیقی شعور موجود نہیں۔ ہمارے علماء اور قائدین خود ہی بے شعوری کا شکار ہیں ، پھر وہ دوسروں کوکس طرح شعور دے سکتے ہیں۔
اسلامک سوسائٹی (آرینج کاونٹی )کے علاقے میں تقریباً 40 ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ تاہم ان میں بمشکل دس فیصد ایسے مسلمان ہوں گے جو اسلامک سوسائٹی سے وابستہ ہوں ۔ میں نے سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کے پاس ایک بار کسی دور کے شہر سے ایک تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ آیا۔ اقبال نے معذرت کرتے ہوئے لکھا ––––– اقبال خانہ نشیں ہے۔ اور موجودہ طوفان کے زمانے میں اپنے گھر کو کشتیٔ نوح سمجھتا ہے۔
میں نے کہا کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں میں جو مسلمان آباد میں وہ اور ان کی نسلیں ایک کلچرل طوفان سے دوچار ہیں۔ وہ مغربی تہذیب کے طوفانی سیلاب میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ایسی حالت میں" اسلامک سوسائٹی" جیسا مرکز ان کے لیے کشتیٔ نوح کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر جگہ ایسے اسلامی مراکز قائم کریں، اور جہاں وہ قائم ہیں وہاں انھیں مضبوط کریں اور ان سے وابستہ رہتے ہوئے اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔ جو لوگ ان مرکزوں سے علاحدہ رہیں گے ان کے لیے اندیشہ ہے کہ وه فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ(ھود 43:) کا مصداق ثابت ہوں ۔
امریکی براعظم کے دوبڑے حصے ہیں۔ ایک کو ساؤتھ امریکہ اور دوسرے کو نارتھ امریکہ کہا جاتا ہے۔ نارتھ امر یکہ زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اگر صرف لفظ"امریکہ " بولا جائے تو اس سے یہی نارتھ امریکہ مرادلیا جاتا ہے۔ میرا موجودہ سفر نارتھ امریکہ میں ہوا جس کو زیادہ صحیح طور پر یو ایس یا ہوایس اے کہا جاتا ہے۔ امریکہ (یونائیٹڈ اسٹیٹس) کا رقبہ 9363405 مربع کیلو میٹر ہے۔ یہ رقبہ انڈیا کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے ۔
"امریکہ ایک خوش قسمت ملک ہے" ایک صاحب نے کہا ۔" امریکہ میں ہر قسم کے قدرتی ذرائع وافر مقدار میں موجود ہیں ، اور یہی اس کی غیر معمولی ترقی کا راز ہے "۔ میں نے کہا کہ یہ ادھوری بات ہے۔ امریکہ نے اگر ذرائع کی فراوانی کے بل پر ترقی کی ہے تو جاپان کی ترقی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے جہاں قدرتی ذرائع نایابی کی حد تک کم ہیں ۔ سیاسی حالات کا غیر موافق ہونا اس پر مزید ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جاپان کا ظاہرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انسان کی محنت اوردانش مندی ہر چیز پر فوقیت رکھتی ہے ۔ وہ ہر دوسری چیز پر بالا ثابت ہوتی ہے ۔
اینڈریو کلگور (Andrew Killgore) یہاں کی ایک مشہور شخصیت ہیں۔ انھوں نے امریکہ کی مہاجر کمیونٹی کے ایک اجتماع میں تقریر کی۔ اس میں انھوں نے کہا کہ کسی بھی سماج میں سب سےزیادہ محنت سے کام کرنے والے لوگ مہاجر ہیں :
The hardest working people in any society are the immigrants.
امریکہ جیسے ملک میں جو حیثیت مہاجر کی ہے ، وہی ہندستان جیسے ملک میں اقلیتی فرقے کی ہے ۔ ایک اعتبار سے ، دونوں ہی اقلیت کا کیس ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ کی" اقلیت " زیادہ محنت کے ذریعہ اپنے کامیاب مستقبل کی تعمیر کر رہی ہے ، اور ہندستان کی "اقلیت " محنت کے راستے کو چھوڑ کر احتجاج اور مطالبہ کا نا کام راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس فرق پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں یہ بات آئی کہ امریکہ جیسے ملکوں کی" اقلیتیں" اپنی فطرت پر ہیں ۔ یہ فطرت کا سکھایا ہوا سبق ہے کہ جہاں کم مواقع ہوں ، وہاں زیادہ محنت کرو۔ چنانچہ یہ لوگ فطرت کے زیر اثر ایسا کرتے ہیں کہ محنت کی زیادتی سے مواقع کی کمی کی تلافی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ہندستان جیسے ملکوں میں فطرت اور انسان کے درمیان ایک مصنوعی پردہ حائل ہو گیا ہے۔ یہ نام نہاد لیڈروں کا پردہ ہے۔ لیڈروں نے مسلسل جھوٹا سبق پڑھا کر یہاں کے انسان کو فطرت کے راستے سے ہٹا دیا ہے۔ ہندستان کی اقلیت کو اگر اس کے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہوتا تو وہ بھی اپنی فطرت کے زور پر وہی طریقہ اختیار کرلیتی جو امریکہ کی اقلیت نے اختیار کیا ۔
امریکی اقلیت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کی رہنما خدائی فطرت ہے، ہندستانی اقلیت کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے رہنما جھوٹے انسانی لیڈر ہیں۔ انھیں دو لفظوں میں دونوں ملکوں کی اقلیتوں کے فرق کا راز چھپا ہوا ہے ۔
امریکہ کی آبادی ڈھائی سوملین (25 کرور) ہے۔ اس میں چھ ملین یہودی ہیں۔ کل آبادی کا تین فی صد ۔ اس اعتبار سے وہ یہاں کی ایک بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ مگرامر یکی یہودی اپنے کو اقلیت نہیں سمجھتے۔ امریکی نظریے کے مطابق، وہ مختلف مگر برابر (Different but equal) کے اصول کو مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اقلیت محض کوئی عددی معاملہ نہیں۔ وہ در اصل ایک ذہنی حالت کا نام ہے :
Minority is a state of mind.
ہندستان میں بھی آپ کو ایسے مسلمان ملیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم اس ملک میں اقلیت نہیں ہیں، ہم یہاں کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں ۔ مگر ہندوستانی مسلمان کی یہ بات محض ایک لفظی فخر ہے۔ جب کہ امریکی یہودی کی مذکورہ بات مواقع کار کو بتانے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندستانی مسلمان ہندستان میں اقلیت والے حقوق بھی حاصل نہ کر سکے ۔ اس کے برعکس امریکی یہودی امریکہ کے ان مناصب پر قبضہ کیے ہوئے ہیں جو عام حالات میں صرف اکثریت کا حصہ ہوتے ہیں۔
لی آیا کو کا (Lee Iacoca) امریکہ کی تجارتی دنیا میں افسانوی شخصیت (Legend) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ 15 اکتوبر 1924 کو امریکہ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے تجارت کے میدان میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے اپنی آپ بیتی لکھی ہے جو ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ہے اور نیویارک سے چھپی ہے۔ یہاں میں نے یہ آپ بیتی دیکھی ۔ اس کا نام ہے:
IACOCA: An Autobiography, 1984
انھوں نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ آدمی چلتا رہے حتیٰ کہ برے وقتوں میں بھی ۔ آدمی مایوس نہ ہو، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب کہ اس کی دنیا منہدم ہو رہی ہو۔ میں نےسخت محنت کی اہمیت کو جانا۔ آخر کار آپ کو مفید بننا چاہیے:
I learned to keep going, even in bad times. I learned not to despair, even when my world was falling apart. And I learned about the value of hard work. In the end, you've got to be productive.
اپنی زندگی کی کہانی بیان کرنے کے بعد آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ آپ کیسے یہاں تک پہنچے ۔ میں وہی جواب دیتا ہوں جو میرے والدین نے مجھے بتایا تھا –––– اپنے آپ کو استعمال کرو :
People say to me: "You're a roaring success. How did you do it?" I go back to what my parents taught me. Apply yourself (p. 340).
امریکہ کے معمار اپنے ہم وطنوں کو زندگی کا راز یہ بتاتے ہیں کہ اپنے آپ کو استعمال کرواس کے برعکس ہندستان کے مسلم لیڈر اپنے ہم قوم لوگوں کو یہ جھوٹا سبق سکھا رہے ہیں کہ دوسرے کے خلاف حقوق طلبی کی مہم چلاؤ۔
ہندستان میں تجارت کا مطلب لوٹ ہوتا ہے ۔ یہاں میں کسی کے پاس ملکی صنعت کی بنی ہوئی کوئی چیز دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ زبان حال سے کہہ رہا ہو : ایک مرتبہ تو میں پھنس گیا، مگر دوبارہ میں پھنسنے والا نہیں، ہندستان میں آدمی قیمت دے کر بھی اپنی مطلوب چیز کو نہیں پاتا ۔
امریکہ میں صورت حال اس سے بالکل مختلف نظر آئی۔ یہاں ہر چیز سائنس کے جدید معیار پر بنائی جاتی ہے۔ ہینڈ بیگ سے لیکر کارتک ، اور ٹیلی فون سے لیکر دستی گاڑی تک ہر چیز عین وہی ہے جیسا کہ معیار کے مطابق اسے ہونا چاہیے۔ یہاں کا گاہک ضروری قیمت دینے کے بعدہمیشہ اپنی مطلوب چیز کو پالیتا ہے۔
یہ فرق دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہندستان میں بھری ہوئی سیٹوں کے درمیان ایک عظیم الشان سیٹ ابھی خالی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کوئی آکر وہاں بیٹھے ۔ یہاں تجارتی لوٹ کی جگہیں بھری ہوئی ہیں۔ مگر تجارتی تبادلہ کی جگہ ابھی تک خالی ہے۔ یہاں کے مسلمان اگر کو آپریٹو سوسائٹیاں بنائیں اور مشترکہ سرمایہ کے ذریعہ مختلف صنعتیں کھولیں جہاں سستے سامان بنانے کے بجائے حقیقی مطلوبہ معیار کے مطابق چیزیں بنائی جائیں تو وہ زبردست کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہندستان کے وسیع جغرافیہ میں وہ اپنا ایک"امریکہ" بنا سکتے ہیں۔
امر یکی ایک بہت خرچ کرنے والی قوم ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت جاپانی اپنی آمدنی کا 18فی صد حصہ سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرتے ہیں۔ جب کہ امریکی اپنی آمدنی کا صرف 3 فی صد حصہ سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرتے ہیں۔ چنانچہ بچت (Individual savings) کے اعتبار سے اس وقت جاپانی سب سے زیادہ بچانے والی قوم ہیں۔1988 میں جاپانیوں کے سیونگ اکاونٹ میں مجموعی طور پر جو رقم تھی۔ اس کی مقدار 5000 بلین ڈالر ہے۔
امریکیوں کی اسی خصوصیت کا یہ نتیجہ ہے کہ وہاں ہر قسم کی سرگرمیاں شباب پر نظر آتی ہیں ۔ کوئی بھی غلط یا صحیح کام کیجیے ، وہاں آپ کو مالی تعاون کرنے والے مل جائیں گے ۔ خیراتی کاموں میں رقم دینے والے امریکہ میں سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا بھر کی عیسائی مشنریوں کو سب سے زیادہ امداد امریکہ سے ملتی ہے۔ ہندو گرؤوں کو سب سے زیادہ تعاون امریکہ سے ملا ہے ۔ انگریزی اسلامی لٹریچر کا سب سے بڑا مارکیٹ امریکہ ہے ، وغیرہ ۔ بعض لوگ اس کی شکایت کرنے والے ملے کہ امریکہ کے لوگ بے فائدہ کاموں میں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں، مگر ان کے اسی مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ امریکہ میں فائدہ والے کاموں کے لیے بھی بہت زیادہ تعاون حاصل ہو جاتا ہے۔
مغربی دنیا میں امریکی لوگ سب سے زیادہ مذہبی سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً فرانس میں صرف 5 فی صد لوگ چرچ جاتے ہیں ۔ انگلینڈ میں 10 فی صد ۔ مگر امریکہ میں چر چ جانے والوں کی تعداد 50 فی صد ہے۔ امریکہ غالباً واحد ملک ہے جس کی کرنسی (ڈالر) پر یہ فقرہ لکھا ہوا ہوتا ہے :
In God we trust
ایک طرف امریکہ میں اگر جنسی آزادی اور اس قسم کی دوسری برائیاں عروج پر ہیں تو دوسری طرف ان کے یہاں مذہبی مزاج بھی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔ اگر امر یکی سماج کے تاریک پہلوؤں کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو یہاں اسلامی دعوت کے مواقع نہایت روشن نظر آئیں گے۔
یہاں اگر آپ صبح کے وقت کسی سڑک پر نکلیں تو ہر گھر کے سامنے آپ کو پلاسٹک کے بڑے بڑے تھیلے رکھے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ان تھیلوں کے اندر گھر کا کوڑا بھرا ہوتا ہے۔ سرکاری گاڑیاں ان کو اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ پھر خاص قسم کی مشینوں میں رکھ کر انھیں دبایا جاتا ہے تو ان کا حجم بہت کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان کو ٹھکانے لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ مغربی ملکوں میں یہ کام ایک مستقل فن بن چکا ہے جس کو گار با لوجی (Garbology) یا ویسٹ مینجمنٹ (Waste management) کہاجاتا ہے ۔
اس فن میں تازہ ریسرچ اس بات پر ہورہی ہے کہ کوڑے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے کیا کیا جائے ۔ یہ ریسرچ اب کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ حتیٰ کہ کہا جاتا ہے کہ آئندہ یہ ممکن ہوسکے گا کہ سیور گیس (Sever gas) سے ڈائمنڈ بنایا جاسکے۔ امریکی بحریہ کے سائنس دانوں نے حال میں اس کا دعوی کیا ہے۔ ایک شخص نے اس کو بتاتے ہوئے کہا :
That's the most recent claim of US naval scientists.
امریکہ کے حالیہ الکشن (1988) میں جو لوگ صدارت کے امیدوار تھے ، ان میں مسٹرگیری ہارٹ (Gary Hart) کا نام ابتداءً سر فہرست تھا۔ عوام میں ان کی مقبولیت کی بنا پر پیشین گوئی کی جارہی تھی کہ اگلی میعاد کے لیے وہی صدر منتخب ہوں گے۔ مگر الکشن سے پہلے یہاں کے بعض اخباروں نے مسٹر ہارٹ کی ایک تصویر چھاپ دی جس میں وہ امریکہ کی ایک فلم ایکٹرس ڈونا رائس (Donna Rice) کے ساتھ نظر آرہے تھے۔ اخباروں نے انکشاف کیا کہ مسٹر ہارٹ نے ڈونا رائس کے مکان میں رات گزاری ہے۔ اس کے بعد مسٹر ہارٹ کی مقبولیت اچانک ختم ہوگئی۔ حتیٰ ٰ کہ انہیں صدارت کی امیدواری سے اپنا نام واپس لینا پڑا۔
اس کے برعکس مثال پاکستان کی ہے۔ نومبر 1988 کے الیکشن کے موقع پر بھٹو پارٹی کے اسلامی مخالفین نے ایک تصویر چھاپی جس میں مسز نصرت بھٹو کو امریکہ کے سابق صدر مسٹر فورڈ کے ساتھ ناچتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔ اس تصویر کو لاکھوں کی تعداد میں چھاپ کر پاکستان بھر میں پھیلا دیا گیا۔ مگر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، اور پاکستانی عوام نے بھٹو پارٹی کے حق میں ووٹ دے کر بے نظیر بھٹو کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا –––––– اسلامی ملک اور غیر اسلامی ملک کا یہ فرق بھی کیسا عجیب ہے ۔
ایک خبر پڑھی ۔ اس میں بیل گاڑی کے بارے میں ایک" نئی دریافت" کا ذکر تھا۔ ترقی پذیر ملکوں میں جانوروں کے ذریعہ کھینچی جانے والی گاڑیوں میں ٹائر لگانے سے بہت آسانی ہو گئی ہے۔ یہ گاڑیاں ہلکی چلتی ہیں اور ان میں زیادہ سامان ڈھویا جاسکتا ہے۔ مگر دیہاتی علاقوں میں کچی سڑکوں کی وجہ سے ان کے ٹائر اکثر اوقات پنکچر ہو جاتے ہیں اور پھر ان میں دوبارہ ہوا بھرنا اور قابل استعمال بنانابہت مشکل ہو جاتا ہے۔
خبر میں بتایا گیا تھا کہ ان ٹائروں میں ہوا کی جگہ لکڑی کا بھوسہ بھرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ اس طرح ان ٹائروں کے پنکچر ہونے کا خطرہ ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ گاڑیاں تقریباً دس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں اور ان میں ۵۰۰ کلو گرام سامان لادا جا سکتا ہے۔ یہ "دریافت" اقوام متحدہ کے ادارۂ زراعت کے تحت کی گئی ہے۔
موجودہ زمانےمیں کار اور ہوائی جہاز سے لیکر جدید قسم کی بیل گاڑی تک اکثر چیزیں وہ ہیں جو امریکہ سے دنیا کوملی ہیں۔ امریکہ کا یہی تخلیقی عمل ہے جس نے اسے جدید دنیا میں بر ترمقام دیدیا۔ اس کا سبب وہ "سازشیں "نہیں ہیں جو ہم نے اس لیے دریافت کر رکھی ہیں تاکہ دوسروں کے مقابلے میں اپنی پسماندگی کو خود اپنی نااہلی کے خانے میں ڈالنے کے بجائے دوسروں کی نالائقی کے خانے میں ڈال سکیں ۔
مولانا عبد الماجد دریا بادی نے جولائی 1965 کا ایک تجربہ ان الفاظ میں لکھا تھا––––– " ایک دن دوپہر کی گاڑی سے کلیفورنیا یونی ورسٹی کے ایک استاد بے شان و گمان دریاباد پہنچے۔ اور دو ڈھائی گھنٹے کے سوال و جواب کے بعد واپسی کی ٹرین سے واپس ہو گئے۔ امریکہ کے صاف و شفاف بلوری سڑکوں کا عادی ہمارے قصبات کی ادھ کچی ادھ پکی کھانچوں اور گڑھوں سے بھری ہوئی سڑکوں کا تصور بھی نہ کر سکتا ہوگا۔ اور پھر موٹر نشیں امریکی کے ذہن میں کھڑ کھڑے چرخ چوں ایکوں کی تصویریں بھی کیوں آنے لگیں تھیں ۔ اور یہ تجربہ بالکل انوکھا نہیں۔ ایک اور امریکی پروفیسر خاک پھانکتے آج سے چند سال قبل بھی آچکے تھے ۔ ایسے اعجو بہ سفر سے بڑھ کر اعجوبہ سفر بھی غرض وغایت نکلا۔ موضوع مطالعہ وتحقیق ہندستان میں تحریک خلافت کی تاریخ (تقریباً 1929 - 1919) اسی ایک کام کے لیے امریکہ سے ہندستان ، پاکستان کا سفر اور مدر اس، بنگلور، دہلی ، حیدر آباد، کلکتہ، لکھنو ، لاہور، کراچی وغیرہ کے علاوہ دریا باد تک کی پر مشقت مسافت ۔ اور عین اسی زمانہ میں ایک دوسرے امریکی ریسرچ اسکالر اپنا موضوع لیے ہوئے ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی تحریکات ( 1900 سے لیکر 1920 تک) ہندستان کی خاک چھان رہے ہیں۔ اور دریا باد آنے پر ہر وقت آمادہ ۔ لکھنو میں بیٹھے ہوئے یہیں کے حقیر ذخیرۂ معلومات ( کامریڈ وغیرہ کی جلدوں) سے کام لے رہے ہیں (صدق جدید 12اگست 1965)
یہ اس قسم کی بے شمار مثالوں میں سے ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی قو میں کس طرح ہر قسم کے احوال سے اپنے کو باخبر رکھتی ہیں۔ تاکہ ان کی پلاننگ صحیح ہو۔ قدیم زمانہ میں صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد سارے یوروپ میں نئے قسم کے اہل علم جاگ اٹھے جن کو مستشرق کہا جاتا ہے ۔ انھوں نے مشرقی اقوام (بشمول مسلمان) کی اتنی کامل تحقیق کی کہ ان کے بارے میں خو د مشرقی اقوام سے زیادہ واقف اور باخبر ہو گئے۔ اس واقفیت سے انھوں نے زبر دست فائدہ اٹھایا جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
صلیبی جنگوں جیسا واقعہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ برعکس صورت میں پیش آیا۔ مگر موجودہ پورے دور میں مسلمانوں میں کوئی بھی مثال نہیں ملتی جب کہ مسلم اہل علم نے مغربی اقوام کی برتری کا راز سمجھنے کے لیے حقیقی معنوں میں کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔
سیٹل (Seattle) میں امریکہ کی مشہور جہاز ساز کمپنی بونگ (Boeing) کا پلانٹ ہے جس کی ورک فورس(Workforce) 96 ہزار ہے۔ یہ اپنی وسعت کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا کارخانہ ہے جو امریکی معیار کے 57 فوٹ بال فیلڈ کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے، اگر آپ وہاں جائیں تو وہاں ایک شاندار بورڈ پر آپ کو یہ الفاظ لکھے ہوئے ملیں گے کہ جس طرح ہیرا تراشنے والا ہیرے کو تراشتاہے ، اسی طرح ہمارے ماہر کاریگر ہر جہاز کو درست کرتے ہیں اور حد درجہ صحت اور تفصیل کے ساتھ اس کو تیار کرتے ہیں :
Just as the diamond cutter strikes the stone, so our skilled workers assemble and carefully inspect each airplane with precision and detail.
ابتداءً بوئنگ کمپنی میں کام کا معیار ایسا ہی تھا۔ مگر اب اس کا سابقہ معیار باقی نہیں رہا ہے ۔ 1988 میں بوئنگ کے ایک درجن سے زیادہ جہازوں کے ساتھ چھوٹے یا بڑے حادثات پیش آئے۔ چنانچہ اب بوئنگ کمپنی کی ساکھ (Reputation) بہت گر گئی ہے ۔ آبزرور (The Observer) کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان ہوائی حادثات کا سبب زیادہ تر بناوٹ کی خامیاں (Manufacturing errors) تھیں –––––– الفاظ میں اعلیٰ معیار مقرر کر نا بے حد آسان ہے،مگر عمل میں اس کو مسلسل طور پر برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہے ۔
امریکہ نے ایک شٹل خلا میں بھیجی جس کا نام چیلینجر (Challenger) تھا۔ یہ شٹل دو ملین میل کا سفر طے کر کے 9اپریل 1983 کو زمین پر واپس آگیا۔ اس میں دو خلائی کاریگر (Orbital repairman) اوپر بھیجے گئے تھے ۔ ان دونوں کے جسم پر 250پونڈ وزن کا خلائی سوٹ تھا ۔ جن میں سے ہر ایک کی قیمت دو ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔ وہ زمین سے 176میل کی دوری پر اپنے جہاز سے باہر نکلے اور چار گھنٹہ تک خلا میں رہے اور ایک مواصلاتی سٹلائٹ کی مرمت کا کام کر کے دوبارہ اپنے کیبن میں واپس آگئے ۔
امریکی خلا باز جس وقت زمین سے پونے دو سو میل کی بلندی پر " تاریخ "کا پہلا خلائی کارنامہ انجام دے رہے تھے ، اس وقت سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اپنے زمینی دفتر میں بیٹھے ہوئے ان سے بات کی ۔ صدر نے ان کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ یہ خلائی شٹل ہمارے اس عہد کی ایک علامت ہے کہ ہم خلا میں امریکی بالاتری کو باقی رکھیں گے :
The space shuttle is a symbol of our commitment to maintain America's leadership in space. Herald Tribune, London, April 10, 1983.
اب پانچ سال بعد امریکہ کی خلائی بالاتری کا افسانہ ختم ہو رہا ہے۔ خلائی بالاتری کا منصوبہ امریکہ کے لیے اتنا مہنگا پڑا کہ وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگیا۔ انسان اپنی محدودیت کو نہیں جانتا اگر وہ اپنی محدودیت کو جانے تو ہرگز وہ بڑی بڑی باتیں نہ کرے ۔
ایک خبر اخبار میں نظر سے گذری ––––– امریکہ اور فلپائن کی حکومت کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا ہے جس کے تحت واشنگٹن نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے کہ وہ فلپائن میں اپنے چھ فوجی اڈوں (Military bases) کے استعمال کے لیے پانچ کرور ڈالر سالانہ معاوضہ ادا کرے گا۔ یہ معاہدہ ۱۹۹۱ تک نافذ رہے گا۔ ان میں ایک فضائی اڈہ ، ایک بحری اڈہ ، اور چار نسبتاً چھوٹی تنصیبات شامل ہیں۔ امریکہ یہ سالانہ معاوضہ معاشی امداد ، فوجی تعاون اور اشیاء کی فراہمی کی صورت میں ادا کرے گا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی خارجہ پالیسی کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ رہا ہے کہ وہ عالمی قیادت حاصل کر ے ۔ وہ اس کی بے حد مہنگی قیمت مسلسل دیتا رہا ہے ۔ مذکورہ خبر اس کی محض ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ مگر امریکہ کے مدبرین اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ یہ پالیسی قابلِ عمل نہیں۔ ایک امریکی لیڈر نے کہا کہ ایک خاندان کی طرح ایک سماج بھی اپنے ذرائع سے باہر جا کر غیر محدودطور پر زندہ نہیں رہ سکتا :
A society, like an individual family, cannot live beyond its means indefinitely.
اسی کا نام حقیقت پسندی ہے۔ غیر ِاسلام احساس حقیقت کی زمین پر کھڑا ہوتا ہے اور اسلام احساس ِخداوندی کی زمین پر ۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے پاس آج دونوں میں سے کوئی زمین موجود نہیں۔ اوربلاشبہ یہی ان کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔
نومبر 1988 میں امریکہ میں جو صدارتی الیکشن ہوا ہے ، اس میں جارج بش (George Bush) کو امریکہ کے صدر کی حیثیت سے چنا گیا ہے۔ ایک خبر پڑھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مسٹر جارج بش کا ایڈ منسٹریشن امریکہ کی اقتصادی پالیسی میں اہم تبدیلیاں لارہا ہے۔ مثلاً امریکہ اب تک یورپ کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا رہا ہے۔ مگر نئے فیصلہ کے تحت ایشیا ءکو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے گی۔ اس کا سبب ایشیاء سے ہمدردی نہیں، بلکہ امریکہ کے اپنے مفاد کا تحفظ ہے ۔
نئے ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ 1987 میں امریکہ کی تجارت یورپ سے تقریباً 170 بلین ڈالرکے بقدر تھی جب کہ اسی مدت میں ایشیا سے امریکہ کی تجارت 241 بلین ڈالر رہی ۔ 1988 میں بھی یہی تناسب مزید اضافے کے ساتھ جاری ہے ۔
باشعور لوگ ہمیشہ اپنے عمل کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی کوتاہی کا اعتراف کر کے اپنے عمل کا رخ بدل لیتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ بے شعور ہوں، ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ایک بار وہ جس ڈگر پر چل پڑیں، بس اسی ڈگر پر وہ بے سوچے سمجھے چلتے رہتے ہیں ، ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ وہ بربادی کے گڑھے میں گر کر اصلاحِ حال کا آخری موقع کھو چکے ہوں ۔ امریکہ کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بے قید آزادی ہے۔ اس بے قید آزادی کا سب سےزیادہ اظہار جنسی معاملات میں ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی کم سن لڑکیوں میں ، دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلہ میں ، اسقاط کی شرح سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔ یورپی قوموں کے مقابلے میں تقریباً دوگنا زیادہ ۔ 15سے 19 سال کی عمر کی امریکی عورتیں تقریباً دس فی صد کی تعداد میں ہر سال حاملہ ہو جاتی ہیں :
American teenage girls have the highest rate of abortion in the developed world, more than double that of most European nations. About 9.8 per cent of American women aged 15 to 19 become pregnant annually, the highest rate among the nations studied.
بیسویں صدی میں ایک طرف امریکہ میں آزاد زندگی کا تجربہ کیا گیا، اور دوسری طرف سوویت روس میں پابند زندگی کا۔ امریکہ میں آزاد نظام کے تجربہ نے اس کو بربادکن اباحیت تک پہونچا دیا۔ یہاں تک کہ خود امریکہ میں بی ایف اسکنر (B.F. Skinner) جیسے لوگ پیدا ہوئے جو کہہ رہے ہیں کہ ہم آزادی کا تحمل نہیں کر سکتے :
We can't afford freedom
دوسری طرف سوویت روس میں پابند زندگی کوقائم کرنے کی کوشش کا یہ بھیانک انجام ہوا کہ سابق روسی وزیر اعظم جوزف اسٹالن نے ۱۲ ملین آدمیوں کو مار ڈالا، مجموعی طور پر 38 ملین آدمی اس کی تعذیب کا شکار ہوئے ۔ یہ اعداد و شمار خود روسی مورخ میڈ ویڈیو (Roy Medvedev) نے " ماسکو نیوز " میں شایع کیے ہیں (کلیر ٹی 4دسمبر 1988) چنانچہ موجودہ روسی وزیر اعظم میخائیل گوربا چوف کو اعلان کرنا پڑا کہ" ہم پابند زندگی کا تحمل نہیں کر سکتے" ۔
حقیقت یہ ہے کہ خدائی رہنمائی کے بغیر جب بھی انسانی زندگی کا نقشہ بنایا جائے گا، وہ یا تو ایک انتہا کی طرف جائے گا یا دوسری انتہا کی طرف ۔ وہ کبھی معتدل اور متوازن نقشہ نہیں ہو سکتا۔
امریکہ کے سابق صدر مسٹر رونالڈ ریگن نے اپنے آٹھ سالہ دورِ حکومت میں امریکہ کو کوئی ترقی نہیں دی، البتہ اس کو اقتصادی مشکلات میں مبتلا کر دیا۔ ریگن نے ، بظاہر اپنی ذاتی مقبولیت کو بڑھانے لیے ستارہ کی جنگ (Star Wars) کا نعرہ لگایا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایسی جنگی ٹکنالوجی تیارکی جائے کہ دشمن کے حملے کا مقابلہ زمین سے اوپر ہو سکے اور اس کو خلا کے اندر ہی برباد کر دیا جائے۔
اس سلسلے میں ریسرچ اور تجربات کا خرچ اتنا بڑھ گیا کہ امریکہ جو دنیا کو قرض دیتا تھا ، وہ خود سب سے بڑا مقروض ملک بن گیا۔ اس وقت (1988 کے آخر تک) امریکی قرضہ دو کھرب ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے ۔ صرف جاپان کا قرضہ اس کے اوپر 15 ارب بیس کرور ڈالر ہے۔ اس وقت امریکی انتظامیہ کے اخراجات اس کی آمدنی سے بہت زیادہ ہیں ۔ مختلف ملکوں کا سرمایہ جو اس وقت امریکہ کے بینکوں میں ہے ، اگر وہ اس کو نکال لیں تو امریکہ اچانک دیوالیہ ہوجائے گا۔ دنیا کے دس بڑے بینکوں میں صرف ایک امریکی بینک ہے ، باقی سب جاپانی بینک ہیں ۔ پہلے یہ حال تھا کہ دنیا بھر میں جتنی کاریں تیار ہوتی تھیں، ان کا ۷۵ فیصد امریکہ تیار کرتا تھا۔ اب صرف 25 فی صد کاریں یہاں تیار ہو رہی ہیں۔ 1972 میں دنیا کی ترقی یافتہ ٹکنالوجی کا 70 فی صد امریکہ میں تیار ہوتا تھا۔ اب اس کی مقدار صرف 30 فی صد رہ گئی ہے۔
کوئی شخص یا قوم خواہ وہ کتنا ہی زیادہ طاقتور ہو ، اس کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ طاقت کے اندر اقدام کرنا کامیابی کی طرف لے جاتا ہے اور طاقت کے باہراقدام کرنا بربادی کی طرف ۔
ایک لطیفہ پڑھنے کو ملا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمانے میں مذہبی طبقےکی اہمیت کیوں کم ہوگئی ہے ۔ اگر سب نہیں تو کم از کم ایک وجہ یقینا ً یہی ہے جو اس لطیفہ میں بتائی گئی ہے۔
۸۶ سال کی ایک بوڑھی عورت پہلی بار ہوائی جہاز میں سفر کر رہی تھی ۔ اس نے دورانِ پرواز جہاز کے عملہ کی طرف سے ایک اعلان سنا : آپ کا کیپٹن آپ سے ہم کلام ہے ۔ بعض مشینی خرابی کی وجہ سے ہمارے چوتھے انجن نے کام چھوڑ دیا ہے ۔ تاہم اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہم تین انجن کے ذریعہ اپنی پرواز جاری رکھیں گے اور وقت پر اپنی منزل پر اتر جائیں گے۔ مزید میرے پاس آپ کے لیے کچھ قابل اطمینان خبر بھی ہے۔ ہم اپنے ساتھ جہاز میں چار پادری رکھتے ہیں۔ بوڑھی خاتون جو اعلان کو بغور سن رہی تھی ، اس نے جہاز کے عملےکے ایک شخص کو بلا کر کہا : براہ کرم کیپٹن سے یہ کہدیں کہ میں اس کو زیادہ پسند کروں گی کہ ہمارے پاس چار انجن ہوں اور تین پادری :
An 86-year-old woman who was flying for the first time heard the following announcement come over the plane's intercommunication system. "This is your captain speaking. Our number four engine has just been shut off because of mechanical trouble. However, there is nothing to worry about. We will continue our flight with three engines and will land on schedule. Also, I have some really reassuring news for you. We have four priests on board."
The elderly passenger, who had been listening apprehensively, called the flight attendant. "Would you please tell the captain," she said, "that I would rather have four engines and three priests."
یہ لطیفہ دور جدید کے ایک اہم پہلو کو بتاتا ہے ۔ موجودہ زمانہ مشینی زمانہ ہے۔ آج ہر چیز کا تعلق مشین سے ہو گیا ہے ، خواہ سفر کرنا ہو یا گھر کے اندر کھانا پکانا یا اشیاءِ صرف کو تیار کر نا ہو۔ قدیم روایتی دور میں ان چیزوں کے لیے مشینی ماہرین کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ آج ہر چیز کا تعلق مشینی ماہرین سے ہو گیا ہے ۔ یہی صورت حال ہے جس نے موجودہ زمانے میں مذہبی طبقے کی اہمیت گھٹادی اور مشینی طبقے کی اہمیت کو لوگوں کی نظر میں بڑھا دیا۔ کیوں کہ دور جدید کی مشینیں مشینی ماہرین سنبھالتے ہیں نہ کہ مذہبی ما ہرین ۔
ایک صاحب نے کہا کہ اسلام ، امریکہ میں مغلوب ہو گیا ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ جو مسلمان امریکہ آئے ، وہ ابتداء ً اپنے ساتھ اسلامی تہذیب لے کر آئے تھے ۔ اس طرح یہاں اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا مقابلہ پیش آیا۔ اس مقابلے میں مغربی تہذیب برتر ثابت ہوئی۔ کیوں کہ ان مسلمانوں کی اکثریت نے اب اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو اختیار کر لیا ہے۔
میں نے کہا کہ اس معاملے کو بتانے کے لیے زیادہ صحیح لفظ یہ ہو گا کہ یہ کہا جائے کہ یہاں جو مقابلہ پیش آیا وہ اصول پسندی اور خواہش پرستی کے درمیان تھا۔ اسلام اصول پسند زندگی کا نمائندہ تھا، اور مغربی تہذیب خواہش پرست زندگی کی نمائندگی کر رہی تھی ۔ اور ساری تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ انسان اس معاملے میں ہمیشہ کمزور واقع ہوا ہے، وہ اصول پسندی کو چھوڑ کر خواہش پرستی کی طرف جھک جاتا ہے ۔
یہ تصادم امریکہ میں نہیں بلکہ ہر جگہ جاری ہے ۔ جہاں بھی آدمی کو موقع مل رہا ہے۔ وہ اصول کو چھوڑ کر خواہش کو اختیار کر لیتا ہے۔ امریکہ میں یہ واقعہ تہذیب کے انداز میں ہو رہا ہے اور دوسرےمقامات پر عمومی انداز میں ۔
ایک صاحب نے اپنی گفتگو میں مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ کبھی مسلمان دنیا میں غالب اور فاتح حیثیت رکھتے تھے ، آج مسلمانوں کی تعداد ساری دنیا میں ایک بلین سے بھی زیادہ ہے ، مگر آج ہمارا حال یہ ہے کہ دنیا پر اثر انداز ہونا تو درکنار دوسرے لوگ ہمارے قومی فیصلے کرتے ہیں ، آج ہم اپنی قسمت کے مالک نہیں :
We are not the master of our destiny
موجودہ زمانے میں تقریباً ہر جگہ مسلمان اسی انداز میں سوچتے ہیں۔ وہ اپنی موجودہ حالت کا تقابل ماضی کی فاتحانہ حیثیت سے کرتے ہیں ، وہ اپنا تقابل داعیانہ حیثیت سے نہیں کرتے ۔ مسلمان اگر اپنی موجودہ حیثیت کا تقابل ماضی کی داعیانہ تاریخ سے کریں تو ان کے اندر دعوتی عمل کا جذبہ بیدار ہوگا۔ مگر ماضی کی فاتحانہ تاریخ سے تقابل ان میں کسی صحت مند جذبہ کو بیدار کرنے کا سبب نہیں بنتا۔
27 دسمبر کو صبح ساڑھے دس بجے کا وقت ہے ۔ صاف آسمان پر سورج چمک رہا ہے ۔ موسم نہایت خوش گوار ہے۔ میں کوسٹا میسا (Costa Mesa) کے پارک (Wakeham Park) میں ایک بینچ پر بیٹھا ہوں۔ پارک کے اندر کے مناظر، باہر کا ماحول اور اطراف کی سڑکیں اور مکانات، ہر چیز اتنی باقاعدہ اور اتنی منظّم دکھائی دیتی ہے کہ دیر تک سوچنے کے باوجود مجھے وہ الفاظ نہیں ملے جن سے میں اس کی تصویر کشی کر سکوں ۔
مجھے ایک بزرگ کا واقعہ یاد آیا۔ انھوں نے ایک بے نمازی نوجوان کو دیکھ کر کہا تھا کہ میرے بیٹے نماز پڑھا کرو تاکہ آخرت میں تمہارا خوبصورت چہرہ آگ میں نہ جلایا جائے۔ امریکہ کی خوبصورت زندگی اور یہاں کے بارونق تمدن کو دیکھ کر میرا دل تڑپ اٹھا۔ میں نے سوچا کہ کاش اللہ کے کچھ بندے اٹھیں اور یہاں کے انسانوں کو اللہ کے دین پر لانے کی کوشش کریں تا کہ ان کی نسلیں اگلی دنیا میں دوزخ کی آگ سے محفوظ ر ہیں ۔ اس دعا کے سوا مجھے کوئی اور لفظ نہیں ملا جس کو میں یہاں درج کروں ۔
امریکہ میں بہت سے "قابل دید" مقامات ہیں ۔ لوگوں نے کئی جگہوں پر لے جانے کی پیش کش کی مگر میں کہیں نہ جاسکا۔ البتہ ۲۶ دسمبر ۱۹۸۸ کو یہاں کا مشہور ڈزنی لینڈ (Disnyland) دیکھا یہ ایک تفریح گاہ یا تماشائی پارک (Amusement park) ہے ۔ اس کو ابتداء ً والٹ ڈزنی نے بنایا تھا اور 1955 میں اس کا افتتاح ہوا۔ بہت بڑے رقبہ میں طرح طرح کی عجیب چیزیں ہیں جن کو دیکھ کر لوگ حیرت اور مسرت میں پڑ جاتے ہیں۔ اس کو دنیا کا سب سے زیادہ خوش کن مقامHappiest place on earth)) کہا جاتا ہے ۔ اس کا ٹکٹ فی کس 25 ڈالر ہے ۔ دنیا بھر کے بے شمار لوگ اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں ہر روز میلے جیسی بھیڑ ہوتی ہے۔ امریکہ میں اس قسم کےدو پارک بنائے گئے ہیں ۔
ڈزنی لینڈ میں ایک طرف حال اور مستقبل کی دنیا کے پُر عجوبہ مناظر ہیں ۔ دوسری طرف اس میں سفر کے لیے چھوٹے چھوٹے ڈبوں کی ایک ٹرین بنانا گئی ہے جو پانی اور کوئلے سے چلتی ہے، اور سیٹی کے بجائے اس میں قدیم طرز کا گھنٹہ ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔ تاہم مجھے ڈزنی لینڈ سے کوئی خاص دلچسپی نہ ہو سکی ۔ مجھے محسوس ہوا کہ ڈزنی لینڈ کی واقعی اہمیت اس سے بہت کم ہے جتنی اس کی پبلسٹی کی گئی ہے۔ اس دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ حقیقی اہمیت کی چیز کو شہرت نہیں ملتی ۔ البتہ غیر حقیقی اہمیت والی چیزیں بہت زیادہ شہرت حاصل کر لیتی ہیں۔
ایک صاحب نے پر فخر طور پر کہا کہ امریکہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے فلک بوس عمارتیں (Skyscrapers) میں شہرت حاصل کی ، میجر ولیم لی بیرن جینی نے 1885 میں پہلی دس منزلہ بلڈنگ شکاگو میں بنائی ۔ اس کے بعد یہ ذوق بڑھتا رہا۔ نیو یارک میں 1930 میں کر سلر بلڈنگ بنائی گئی جس کی ۷۷ منزلیں تھیں۔ 1931 میں نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ بنی جس میں 102 منزلیں ہیں۔ 1973 میں شکاگو میں سیرس ٹاور بنایا گیا جس کی 110 منزلیں ہیں۔ موجودہ سیرس (Sears)میں13 ہزار کار کن کام کرتے ہیں۔ یہ ایک عظیم الشان ریٹیل شاپ ہے، چنانچہ اس کو ہر چیز کی دکان (Everything stores) کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ واقعہ انسانی کارنامہ سے زیادہ خدائی کا رنامے کو یاد دلاتا ہے۔ یہ غیر معمولی اونچی عمارتیں تمام تر لوہا (اسٹیل) کا کرشمہ ہیں۔ قرآن میں ہے کہ لوہے کے اندر خدا نے باٴس شدید (الحدید: 25) پیدا کیا ہے۔ لوہے کی اسی قدرتی صفت نے اس بات کو ممکن بنایا ہے کہ زمین کے او پر اتنی اونچی عمارتیں کھڑی کی جاسکیں۔
"اسکائی اسکر پیر "کو دیکھ کر آپ کے اوپر استعجاب کی حالت طاری ہو رہی ہے ۔ مگر یہ استعجاب حقیقتا ً انسانی انجینیرنگ پر نہیں بلکہ خدائی تخلیق پر ہونا چاہیے ۔ کیوں کہ انجینیرنگ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی تخلیق کا انسانی استعمال ہے ۔" لوہا" تخلیق ہے اور" اسکائی اسکریپر"صرف اس کا ایک استعمال ۔
ایک امریکی سے ملاقات ہوئی جو واشنگٹن کا رہنے والا تھا۔ واشنگٹن امریکہ کی راجدھانی ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ واشنگٹن کے بارے میں کچھ بتائیے ۔ اس نے مسکرا کر کہا :
People only leave Washington by way of the box - ballot or coffin.
یعنی لوگ واشنگٹن کو صرف بکس کی راہ سے چھوڑتے ہیں ۔ ووٹ کا بکس یا تابوت کا بکس۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ راجدھانی ہونے کی وجہ سے واشنگٹن میں ہر قسم کی اعلیٰ ترین سہولتیں مہیا ہیں۔اس کے علاوہ تمام اہم ترین سیاسی فیصلے یہیں ہوتے ہیں۔ جس شخص کو واشنگٹن میں کوئی جگہ مل جائے ، وہ اس کو آخری سمجھ کر اس سے لپٹا رہنا چاہتا ہے ۔ میں نے سوچا کہ جس "واشنگٹن" کا حال یہ ہو کہ ایک "بکس " آدمی کو اس سے جدا کر دے ، اس واشنگٹن کی کیا حقیقت۔ "واشنگٹن" تو وہ ہے جس میں ہمیشگی کی صفت پائی جائے۔ اور ایسا واشنگٹن آدمی کو جنت کے سوا کہیں اورنہیں مل سکتا ۔
29 دسمبر 1988 کو میں جناب صغیر اسلم صاحب کے گھر پر تھا۔ صبح فجر کے وقت اچانک خطرہ کا الارم بجنے لگا ۔ چند سکنڈ کے بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بھی ۔ صغیر احمد صاحب نے رسیور اٹھایا تو دوسری طرف سے فورا ًآواز آئی کیا آپ ٹھیک ہیں۔ (Are you OK, Sir?)
یہاں پر گھروں میں ایک سسٹم لگا ہوا ہوتا ہے جس کو سیکورٹی الارم سسٹم کہتے ہیں۔ اگر کوئی اجنبی شخص دروازہ کھول کر باہر نکلے یا اندر داخل ہو تو الارم فوراً بجنے لگتا ہے ۔ اور عین اسی وقت پولس کے کنٹرول روم میں لال بتی جل جاتی ہے۔ پولس ایک منٹ کے اندر صاحب مکان کو ٹیلی فون کر کے خیریت معلوم کرتی ہے ، یہ ٹیلی فون اسی کے مطابق ، پولس کے دفتر سے آیا تھا۔ مذکورہ الارم کا قصہ اس لیے پیش آیا کہ ہمارے ایک ساتھی نے فجر کے وقت باہر جانے کے لیے گھر کا دروازہ کھول دیا تھا۔
اتنے زبر دست انتظام کے با وجود امریکہ میں مسلسل قتل اور ڈاکہ کے واقعات ہوتے رہتے ۔ پر امن سماج کے قیام کے لیے مشینی انتظام کے سوا بھی ایک چیز درکار ہے۔ اور وہ خدا کا خوف ہے ۔ صرف مشینی انتظام کبھی پر امن سماج کے قیام کی ضمانت نہیں بن سکتا ۔
صغیر احمد اسلم (پیدائش 1936) کمالیہ (پنجاب) میں پیدا ہوئے ۔ اب وہ امریکی شہری ہوچکے ہیں ۔ انھوں نے اپنا 1951 کا ایک واقعہ بتایا۔ رمضان کا زمانہ تھا۔ اسکول سے فارغ ہو کر وہ بائیسکل کے ذریعے گھر کے لیے روانہ ہوئے ۔ انھوں نے بازار سے آلو بخارا اور مالٹا خریدا۔ اس کو بائیسکل کے پیچھے رکھ کر جارہے تھے ۔ راستہ میں ایک شخص ملا۔ اس نے ان کو روکا اور کچھ آلوبخا را زبر دستی نکال کرلے لیا۔ صغیر احمد اسلم صاحب نہ غصہ ہوئے اور نہ اس سے دوبارہ اپنا آلو بخارا چھیننے کی کوشش کی۔ اس کے بجائے انھوں نے کہا : دیکھو، یہ مالٹا ہے ، اس میں سے بھی لے لو۔ آدمی نے مزید کوئی چیز نہ لی ، وہ شرمندہ ہو کر چلا گیا ۔
مذکورہ واقعہ میں ایک صورت یہ تھی کہ صغیر اسلم صاحب یہ سوچتے کہ ابھی تو اس نے صرف آلو بخارا لیا ہے ، اگر میں کمزوری دکھاؤں تو وہ مالٹا بھی لے لے گا ۔ اور اگر میں نے مزید کمزوری دکھائی تو وہ میری با ئسکل بھی چھینے کی کوشش کرے گا۔ مگر اس قسم کے خیالات صرف شیطانی وسوسہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر خود عمل نہ کر نا فطرت خداوندی کو عمل کرنے کا موقع دینا ہے۔ چنانچہ صغیر اسلم صاحب نے جب کوئی مخالفانہ رد ِّعمل ظاہر نہیں کیا تو مذکورہ آدمی کا ضمیر جاگ اٹھا۔ فطرتِ خداوندی نے وہ کام زیادہ بہتر طور پر کر دیا جس کو انسان صرف ناقص طور پر انجام دیتا۔
جناب صغیر اسلم صاحب یہاں کپڑے وغیرہ کی تجارت کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کئی سبق آموز تجربات بتائے۔ انھوں نے کہا کہ 1975 میں ایک بار ایک اخبار میں اشتہار نکلا کہ فلاں ہوٹل میں ہمارا لیکچر ہو گا جس میں بتایا جائے گا کہ آپ مفید طور پر کوئی جائداد (Real estate) کس طرح حاصل کریں ۔ اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ اس کی کوئی فیس نہیں ہے ۔ میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ہال بالکل بھرا ہو اتھا۔ بلکہ سیٹ پر جگہ نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے لوگ کھڑے ہوئے تھے ۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار آدمی سامعین میں موجود تھے ۔
اس اجتماع میں انھوں نے محض اپنا تعارف کرایا اور کچھ ابتدائی باتیں بتا کر کہا کہ کل ہمارا آٹھ گھنٹہ کا کورس ہوگا ، اس میں تمام تفصیل بتائی جائے گی اور اس کی فیس 500 ڈالر ہوگی۔ صغیر اسلم صاحب نے 500 ڈالر دے کر ٹکٹ خرید لیا۔ اگلے دن وہ ہال میں پہنچے تو وہاں بمشکل ایک در جن آدمی موجود تھے ۔ انھوں نے آٹھ گھنٹےکے کورس میں شرکت کی۔ اس میں انہیں جائداد کی خریداری کے بارے میں بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔ ان کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے اگلے چند مہینوں میں ۱۰ مکانات کی خریداری مکمل کی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ کام میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا کیوں کہ صرف تین سال میں ان مکانات کی قیمت دگنا ہو گئی۔ انھوں نے پانچ سو ڈالرخرچ کر کے پانچ لاکھ ڈالر کمائے۔
اس دنیا میں کامیابی کے لیے حوصلہ درکار ہے۔ جو شخص حوصلہ مند نہ ہو ، وہ اس دنیا میں کبھی اعلیٰ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔