کرنے کا کام
ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے آغاز میں مفصل مقدمہ لکھا تھا جس میں اس نے فلسفۂ تاریخ سے بحث کی تھی۔ یہ حصہ "مقدمہ ابن خلدون" کے نام سے الگ سے چھپا اور بہت مقبول ہوا۔ اس مقدمہ کا ایک باب اس نے ان الفاظ میں قائم کیا ہے کہ ۲۳ ویں فصل اس بارے میں کہ مغلوب ہمیشہ اس بات کا شیدائی ہوتا ہے کہ وہ اپنے شعار، اپنے لباس، اپنے مذہب ، اپنے تمام حالات اور اپنی تمام عادات میں غالب کی پیروی کرے :
الْفَصْلُ الثَّالِثُ وَالْعِشْرُونَ فِي أَنَّ الْمَغْلُوبَ مُولَعٌ أَبَدًا بِالِاقْتِدَاءِ بِالْغَالِبِ
فِيْ شِعَارِهِ وَزِيِّهِ و نَحَلْتُه وَسَائِرِ أَحْوَالِهِ وَعَوَائِدِه
جب ایک قوم غالب اور دوسری قوم مغلوب ہو جائے تو مغلوب قوم کے افراد میں تاثر پذیری کا عمل اپنے آپ شروع ہو جائے گا، بغیر اس کے کہ غالب قوم نے اس کے لیے کوئی براہ راست کوشش کی ہو ۔
ایسی حالت میں مغلوب قوم کے رہنما اگر اپنے افراد میں تاثر پذیری کا عمل دیکھیں اور غالب قوم کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر اس کے خلاف چیخ پکار شروع کر دیں تو یہ ایک بے معنی بات ہوگی۔ کیونکہ ابن خلدون کے مطابق ، یہ عمل خود تاریخی قانون کے تحت ہو رہا ہے نہ کہ حقیقتا ً غالب قوم کی سازش اور جارحیت کے تحت ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسے موقع پر کرنے کا اصل کام غالب قوم کے خلاف احتجاج کرنا نہیں ہے بلکہ خود مغلوب قوم کو دوبارہ اوپر اٹھانا ہے ۔ غالب قوم کا اپنی برتری کے ساتھ زندہ رہنا ، یہی مغلوب قوم کا موت سے دو چار ہونا ہے ۔ ایک کے ابھرنے ہی کا نام دوسرے کا مٹنا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر غیر قوم کے خطرہ اور سازش کا انکشاف کر نا صرف اپنی بے خبری کا انکشاف کرناہے۔ خبردار رہنما وہ ہے جو ہر چیز کو بھلا کر مغلوب قوم کی داخلی تعمیر میں لگ جائے ، جو خود اپنی قوم کو دوبارہ اٹھانے میں اپنی ساری توانائی صرف کر دے۔
مغلوب اپنی اصلاح سے دوبارہ اوپر اٹھ سکتا ہے نہ کہ دوسروں کے خلاف فریاد اور مطالبہ سے۔