پہلا کام

سلمان رشدی کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے –––– آدھی رات کے بچے (Midnight's Children) اس کتاب میں سلمان رشدی نے اپنے بارے میں کہا ہے کہ میں عقیدہ اور بے عقیدگی کے درمیان جھول رہا ہوں:

I am hanging between belief and disbelief.

رشدی کا یہ کہنا کہ میں مذہب کے معاملے میں یقین اور بے یقینی کے درمیان لٹکا ہوا ہوں، یہ صرف ایک شخص کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک پوری نسل کا معاملہ ہے۔ سلمان رشدی نے جو بات اپنے بارے میں کہی ہے یہی کروروں مسلمانوں کی بات ہے۔ مسلمانوں کی نئی نسل جس کی تعلیم جدید ماحول میں ہوئی ہے اس کا کم از کم 75 فیصد حصہ اسی قسم کی بے یقینی میں مبتلا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی شخص نے رشدی والا قلمی پیشہ اختیار کیا اور وقتی فائد ے کی خاطر اپنے دل کی گندگی کو کاغذ پر انڈیلنے لگا۔ اس کے برعکس دوسرے لوگ کسی اور میدان میں کھانے کمانے میں مشغول ہیں۔ چنانچہ انہیں رشدی جیسی گندی کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ۔

دسمبر 1988ء میں جب کہ میں امریکہ میں تھا، مجھے وہاں کے ایک اسلامی مرکز میں لے جایا گیا۔ یہ مرکز جس  خطے میں واقع ہے وہاں تقریباً  ایک لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ میں نے منتظمین سے پوچھا کہ اس علاقے کے ایک لاکھ مسلمانوں میں سے کتنے لوگ ہیں جو اس اسلامی مرکز سے جڑے ہوئے ہوں۔ ایک ذمہ دار نے جواب دیا کہ دس فیصد مسلمان ہیں۔ حاضرین میں سے دوسرا شخص بولا کہ آپ مبالغہ کر رہے ہیں، بمشکل 5فیصد تعداد ہوگی جو اس مرکز سے جڑی ہوئی ہو ۔

مجھے بتا یا گیا کہ جو مسلمان امریکہ میں آباد ہیں ان کی نئی نسلوں کی بیشتر تعداد اسلام سے بالکل ناواقف ہو چکی ہے۔ ان کو نماز ، روزے سے کوئی مطلب نہیں، جنس اور شراب اور غذا کے معاملےمیں ان کے طریقے وہی ہیں جو دوسرے آزاد خیال امریکیوں کےہیں ۔ وہ بس برائے نام مسلمان ہیں۔

یہ کوئی انکشاف کی بات نہیں ۔ ہر وہ شخص جو مسلمانوں کی جدید تعلیم یافتہ نسل سے واقف ہے، وہ اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "رشدی "ہمارے درمیان ایک نہیں، بلکہ کروروں کی تعداد میں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کی "رشدیت" ظاہر ہو چکی ہے اور کسی کی اب تک چُھپی ہوئی ہے ۔

مسلم نسل کی یہ صورتِ حال موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے ۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ جدید سائنٹفک اسلوب اور وقت کی ترقی یافتہ زبانوں میں اعلیٰ معیار کا اسلامی لٹریچر تیار کر کے شایع   کیا جائے تاکہ " "ارتداد ذہنی" میں مبتلا ہونے والے ان بے شمار مسلمانوں کی بے یقینی کو دوبارہ یقین میں تبدیل کیا جا سکے۔ ان کو بے عقیدگی کے دلدل سے نکال کر دوبارہ عقیدہ کی صالح زمین پر کھڑا کیا جائے۔

مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں میں سے کوئی ایک شخص بھی نہیں جو اس کام کو مؤثر اسلوب اور مطلوبہ معیار پر انجام دے رہا ہو ۔ اپنے دعوی کے مطابق بہت سے لوگوں نے عصری کتابیں چھاپ رکھی ہیں مگر یہ نام نہا د عصری کتا بیں عصری کوڑا خانہ سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔

راقم الحروف نے الرسالہ جولائی 1987 ء میں ایک مضمون شایع   کیا تھا جس کا عنوان تھا "دور ِجدید کی تحریکیں " اس مضمون میں جدید لٹریچر کی اہمیت کو بتاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ جدید لٹریچر دور جدید میں اسلام کے احیاء کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ مگر کتابوں کے ان گنت انبار کے باوجود،  یہ ضرورت ابھی تک غیر تکمیل شدہ حالت میں پڑی ہوئی ہے۔ حتیٰ   کہ لوگوں کے اندر اس کا حقیقی شعور بھی موجود نہیں ۔

میں نے مزید لکھا تھا کہ میں اُردو، عربی ، فارسی اور انگریزی میں اپنے چالیس سالہ مطالعہ کی بنا پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہنما کوئی ایک بھی ایسی قابل ِذکر کتاب وجود میں نہ لا سکے جو جدید سائنٹفک اسلوب اور وقت کے فکری مستویٰ پر اسلامی تعلیمات کو پیش کرنے والی ہو۔ اگر بالفرض کسی صاحب کو اصرار ہو کہ ایسی کتابیں لکھی جاچکی ہیں تو میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ ایسی صرف ایک کتاب راقم الحروف کے پتہ پر روانہ فرمائیں۔

اس مضمون کی اشاعت پر اب دو سال کی مدت پوری ہو چکی ہے۔ مگر آج  تک کسی مسلم ذمہ دار کی طرف سے ایسی کوئی کتاب میرے پاس نہیں بھیجی گئی۔

موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں کا اولین اور اہم ترین کام یہ تھا کہ وہ جد ید علوم کو پڑھیں۔ وقت کی زبانوں کو سیکھیں ۔ آج کے طریقِ استدلال اور اسلوب تحریر میں مہارت پیدا کریں۔ اور اس کے بعد اسلام کی ابدی تعلیمات کو مؤثر اور طاقتور انداز میں پیش کریں تاکہ آج کا انسان اور جدید مسلم نسل اس کو پڑھے اور اس کے ذریعہ سے اپنے کھوئے ہوئے عقیدہ کو دوبارہ حاصل کرے ۔ مگر جدید اسلوب میں طاقتور لٹریچر وجود میں لانا تو درکنار، موجودہ مسلم رہنما قرآن کا ایک صحیح انگریزی ترجمہ بھی تیار کر کے شایع   نہ کر سکے ۔

 ایسی حالت میں مسلم رہنماؤں کا سلمان رشدی کے خلاف ہنگامہ کرنا حقیقتاً   خود اپنی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے ہم معنی ہے۔ یہ اس کام کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا ہے جس کو انھوں نے سرے سے انجام ہی نہیں دیا اور قرآن کا فیصلہ ہے کہ جو لوگ بن کیے پر کریڈٹ لیناچاہیں ان کے لیے خدا کے یہاں عذاب ہے نہ کہ انعام ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom