اسوۂ نبوت
سلمان رشدی کی کتاب (شیطانی آیات) میں نے خود پڑھی ہے ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ یہ ایک انتہائی لغو کتاب ہے۔ اس کتاب کی لغویت کے بارے میں میری وہی رائے ہے جو دو سروں کی رائے ہے ۔ مگر اس کتاب کے بارےمیں مسلمانوں کا ردِّ عمل کیا ہونا چاہیے، اس سلسلے میں میری رائے ان لوگوں سے مختلف ہے جو یہ نعرہ لگارہے ہیں کہ رشدی کو قتل کر کے اسےجہنم رسید کرو ۔
سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں جو کچھ کہا ہے ، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تمام باتیں نہ صرف پچھلے ہزار سال سے کسی نہ کسی شکل میں کہی جاتی رہی ہیں، بلکہ یہ خود اس زمانے میں بھی کہی گئی تھیں جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں موجود تھے۔ اس وقت آپ نے ایسے لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ، اس کو معلوم کر کے ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ اسی قسم کے موجودہ واقعہ میں ہم کیا طرز ِعمل اختیار کریں۔ اس معاملے میں کسی اجتہاد یا قیاس کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ پیغمبر اسلام کا اسوہ (نمونہ) واضح طور پر ہماری رہنمائی کے لیے موجودہے ۔
چند مثالیں
ا۔ سلمان رشدی کی کتاب میں ایک بات نعوذ باللہ یہ کہی گئی ہے کہ قرآن میں جبریل کی لائی ہوئی آیتوں کے ساتھ شیطان کی القاء کی ہوئی آیتیں بھی شامل تھیں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنی کتاب کا نام" شیطانی آیات " رکھا ہے۔ یہ نام زیادہ صحیح طور پر خود رشدی کی کتاب پر صادق آتا ہے ۔ تاہم اس نے اپنے خیال کے مطابق، یہ نام قرآن کو دینا چاہا ہے۔
سلمان رشدی نے اپنا یہ نظریہ اس قصے کی بنیاد پر کھڑا کیا ہے جس کو غر انیق کا قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ قصہ، جس کی تفصیل دوسرے مضمون میں بتائی گئی ہے، اس وقت گھڑا گیا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے اس لغو قصہ کے ابتدائی مصنف مکہ کے مشرکین تھے۔ 8 ھ میں مکہ فتح ہوا تو ان مشرکوں کے اوپر آپ کو مکمل قابو حاصل ہو گیا۔ مگر آپ نے یہ اعلان نہیں فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے غرانیق کا جھوٹا قصہ گھڑا تھا ، انہیں قتل کر کے ان سب کو جہنم رسید کر دو ۔ اس کے برعکس آپ نے ان سے فرمایا کہ اذْهَبُوا أَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ (جاؤ تم سب آزاد ہو )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اسلام کی نظریاتی طاقت پر بھروسہ کیا،نہ کہ اسلام کی شمشیری طاقت پر ۔ چنانچہ تاریخ بتاتی ہے کہ اگر چہ آپ نے ان پر تلواراستعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر اسلام کی نظریاتی طاقت نے ان کو مسخر کر لیا۔ ان کو آزادی دینے کے جلد ہی بعد وہ اسلام کے عقیدہ اور آپ کے اعلیٰ اخلاق سے اتنا متاثرہوئے کہ کلمۂ اسلام کا اقرار کر کے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لیے خدا کی غلامی میں دے دیا۔
۲۔ سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محاونڈ (Mahound) لکھا ہے ۔ یہ ایک استہزائی نام ہے۔ جس طرح بعض لوگ وہابی کو وہا بڑا اور دیوبندی کو دیو کے بندے وغیرہ کہتے ہیں، اس طرح سلمان رشدی نے آپ کے لیے اس بگڑے ہوئے نام کو استعمال کیا ہے جو صلیبی جنگوں کے بعد یورپ کے عیسائیوں نے آپ کےلیے گھڑا تھا۔
اس مجرمانہ حرکت کی مثال بھی زمانہ ٔنبوت میں موجود ہے ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اگرچہ آپ کے دادا عبد المطلب نے محمد رکھا تھا، مگر مکہ کے قریش نے استہزائی طور پر آپ کا نام مذمم رکھ دیا۔ محمد کے معنی ہیں تعریف کیا ہوا جبکہ مذمم کے معنی ہیں مذمت کیا ہوا۔ ابو لہب کی بیوی ام جمیل شاعرہ تھی۔ اس نے مذمم کے لفظ کولےکو شعر کہا تھا اور اس کو اس طرح پڑھا کرتی تھی :
مذمّماً عصينا وأمره أبينا ودينه قلينا
ہم نے ایک قابل مذمت شخص کی نافرمانی کی۔ اس کی بات کا انکار کیا اور اس کے دین سے نفرت کی ۔
اس معاملہ میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے یہ فرمایا ہو کہ دیکھو فلاں لوگ میرا نام بگاڑ کر مجھ کو مذمم کہتے ہیں، ان سب کو قتل کر دو۔ اس کےبرعکس جو ہوا، وہ تاریخ کے الفاظ میں یہ ہے ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ قریش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بگاڑ کر آپ کا نام مذمم رکھتے تھے ۔ اور پھر اسی نام سے آپ کو گالی دیتے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ فرماتے تھے کہ کیا تم لوگوں کو اس بات سے تعجب نہیں ہوتا جو اللہ نے قریش کی ایذارسانی کو مجھ سے پھیر دیا۔ وہ مجھ کو گالی دیتے ہیں اور مذمم کہہ کرمیری ہجو کرتے ہیں۔ حالانکہ میں محمد (تعریف کیا ہوا) ہوں ۔
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَكَانَتْ قُرَيْشٌ إنَّمَا تُسَمِّي رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مُذَمَّمًا، ثُمَّ يَسُبُّونَهُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: أَلَا تَعْجَبُونَ لِمَا يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي مِنْ أَذَى قُرَيْشٍ، يَسُبُّونَ وَيَهْجُونَ مُذَمَّمًا، وَأَنَا مُحَمَّدٌ (سيرة ابن هشام، الجزء الاول، صفحہ۳۷۹)
یہاں دوبارہ دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بگاڑ کر آپ کو اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ مگر آپ اپنے اصحاب سے یہ نہیں کہتے کہ یہ لوگ ناقابلِ معافی جرم کے مجرم ہیں ، ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کر دو۔ اس کے برعکس آپ اپنے اصحاب کی توجہ قول ِانسانی سے ہٹا کر قول خداوندی کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ انسان اگر میری مذمت کرتے ہیں اور میرا سب وشتم کر رہے ہیں تو اس سے کیا ہوا۔ تمام انسانوں کے رب اور ساری کائنات کے مالک نے ابدی طور پر مجھے محمد کے مقام اعلیٰ پر فائز کر دیا ہے۔ پھر ان کی بے ہودہ گوئی کی پروا کرنے کی مجھے کیا ضرورت ۔
سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں ایک اور نہایت بے ہودہ حرکت یہ کی ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ کو نعوذ باللہ ایک بدکردار خاتون کے روپ میں دکھایا ہے۔ یہ بلاشبہ اشتعال انگیز حد تک ایک بے ہودہ بات ہے ۔ کوئی مسلمان کتاب کے اس حصے کو ٹھنڈے ذہن کے ساتھ نہیں پڑھ سکتا۔
مگر یہاں بھی قابل لحاظ بات یہ ہے کہ امہات المؤمنین کی کردار کشی کا یہ جرم پہلی بار رشدی کی کتاب میں نہیں کیا گیا ہے بلکہ یہ شنیع جرم اس سے پہلے خود زمانۂ رسالت میں کیا جا چکا ہے۔دوسرے مضمون میں ہم نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ کس طرح صفوان بن معطل کے ایک واقعہ کوشوشہ بنا کر مدینہ کے کچھ منافقین نے یہ جھوٹا افسانہ گھڑا۔ اور اس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی کی ۔
یہ افسانہ اس وقت اتنا زیادہ پھیلایا گیا کہ کئی مخلص مسلمان تک اس سے متاثر ہو گئے۔ایک مہینہ تک مدینہ کی پوری فضا شرمناک افواہوں سے بھری رہی۔ یہ تکلیف دہ صورت حال صرف اس وقت ختم ہوئی جب کہ خود اللہ تعالیٰ نے مداخلت فرمائی۔ اور قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ یہ افسانہ سراسر بے بنیاد ہے ۔ وہ محض جھوٹا پروپیگنڈہ ہے نہ کہ کوئی واقعی حقیقت ۔
مگر اس وقت بھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام لوگوں کے قتل کا حکم دے دیں جو کردار کشی کی اس جھوٹی مہم میں ملوث تھے۔ کچھ صحابہ نے ایسے افراد کو قتل کرنے کی پیش کش کی ۔ مگر آپ نے اس پیش کش کو قبول نہیں فرمایا۔ امہات المؤمنین کی کردارکشی کے ان مجرمین کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ مدینہ میں اپنی طبعی موت مرے۔ اوراللہ تعالیٰ کے یہاں اپنے آخری حساب کے لیے پہنچا دیے گئے۔
اس واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ الزام کی طاقتور تردید کر کے مجرمین کو چھوڑ دیا جائے تاکہ لوگ ساری عمران کی لعنت کریں، اور پھر مرکر وہ اللہ کی عدالت میں پہنچا دیے جائیں تاکہ وہ اپنے خلاف ابدی لعنت کا فیصلہ سنیں اور ہمیشہ کے لیے رسوائی کے گڑھے میں پڑے رہیں ۔
یہ ہے اس طرح کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ۔ اب اگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں ، اور ہم تو اس کو قتل کر کے رہیں گے ، تو میں کہوں گا کہ "مسلمانوں کے جذبات کا مجروح ہونا " اسلام کے قانون جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اگر اس قسم کی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس کو اپنی قومی سرکشی کے نام پر کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام کے نام پر انہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ اسلام کے نام پر اس قسم کا فعل کریں تو انہیں ڈرنا چاہیے کہ ایک مجرم کو سزا دینے کی کوشش میں وہ خود اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں زیادہ بڑا مجرم نہ بنالیں ۔