قضا و قدر

مارک ٹوین (Mark Twain) ایک انگریزی ادیب اور ناول نگار تھا۔ وہ 1835 میں امریکہ میں پیدا ہوا۔ اور وہیں 1910 میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے اپنی آخر عمر میں ایک بار کہا کہ اب میں ایک بوڑھا آدمی ہوں ۔ اور اپنی زندگی میں بہت سی چیزوں کے لیے فکرمند ہوا ہوں۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کبھی وقوع میں نہیں آئیں :

I am an old man and have known a great many troubles, but most of them never happened.

راقم الحروف کا تجربہ بھی یہی ہے ۔ میں نے اپنی زندگی میں اور دوسروں کی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع دیکھے ہیں جب کہ ایک آدمی کسی صورت حال کے پیش آنے کی وجہ سے سخت پریشان ہو گیا۔ حتیٰ   کہ مستقبل کے اندیشے کی بنا پر اس نے اپنے حال کو برباد کر لیا۔ غم سے نڈھال ہو کر اپنی صحت تباہ کرلی ۔ مگر وقت گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ اندیشہ بجائے خود صحیح نہ تھا جس کی وجہ سے آدمی نےاپنے آپ کو اتنا زیادہ پریشانی میں مبتلا کیا تھا۔

اسلام میں اس کا بہترین حل قضا و قدر کا عقیدہ ہے ۔ مفصل کلمہ میں یہ بات بطور ایمان شامل کی گئی ہے کہ خیر اور شر دونوں اللہ کی طرف سے آتے ہیں (وبالقدر خيره وشره)

"کوشش کرنا بندہ کا کام ہے، اور تکمیل تک پہنچانا اللہ کا کام "اور یہ کہ "جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کی طرف سے ہوتا ہے" یہ عقیدہ انسان کے لیے موجودہ دنیا میں ایک بے حد عظیم تحفہ ہے ۔ وہ انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کرتا ہے کہ وہ نقصان کو سہے اور حادثات کو برداشت کر سکے ۔

موجودہ دنیا امتحان کی مصلحت کے تحت بنی ہے ۔ اس لیے یہاں عین اس کے تخلیقی نقشے کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کی زندگی میں ناموافق حالات پیش آتے ہیں۔ اس کو نقصان سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر یہ عقیدہ آدمی کے اندر بیٹھ جائے کہ جو ہوا وہی ہونے والا تھا، اس کے سوا کچھ اور ہونا ممکن نہ تھا تو آدمی کی زندگی نہایت سکون کی زندگی بن جائے ، وہ راضی برضا ہو کر ہرحال میں پوری طرح مطمئن رہے ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom