پیغمبر کا طریقہ
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ِاسلام اور دوسرے پیغمبروں کا استقبال ان کی قوموں نے بہت بُرے انداز سے کیا۔ انھوں نے ان کا مذاق اُڑایا۔ ان کی تحقیر و تذلیل کی۔ ان کے اوپر جھوٹے الزامات لگائے، وغیرہ۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا کہ اس قسم کے مجرمین کو گردن زدنی قرار دے کر فوراً انہیں قتل کر دیا جائے۔ بلکہ دلیل کے ذریعہ ان کی بات کی کاٹ کی گئی۔ مثال کے طور پر اس سلسلہ میں ایک آیت یہ ہے۔
وَيَقُوْلُوْنَ اِنَّهٗ لَمَجْنُوْن ۔ وَمَا هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْن (القلم:51-52) اور وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص ضرور دیوانہ ہے ۔ حالانکہ وه صرف نصیحت ہے سارے عالم والوں کے لیے ۔
ان آیات پر غور کیجئے۔ یہاں یہ نہیں کہاگیاکہ یہ لوگ خدا کے پیغمبر کو مجنون کہتے ہیں اس لیے انہیں فور اً قتل کر دو ۔ بلکہ دلیل کی زبان میں ان کی بات کو رد کیا گیا۔ اس آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں ، یہ ہے کہ اے پیغمبر کو مجنون کہنے والو، پیغمبر کے کلام کو دیکھو۔ کیا مجنون کا کلام ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس قرآن کو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ، وہ سراپا نصیحت ہے۔ اس میں ساری انسانیت کے لیے بہترین پیغام ہے ۔
کیا کوئی جنون والا آدمی ایسی کتاب لا سکتا ہے جس میں اتنی اعلیٰ تعلیمات درج ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں یہی طریقہ اختیار فرمایا۔ آپ نے ہجو اوراستہزاء کے مواقع پر یا توصبر کیا، یا دلیل کی زبان میں ان کا رد کیا۔
آپ قاتل ِعالم نہیں تھے بلکہ رحمت ِعالم تھے ۔ اور رحمت عالم وہی شخص ہو سکتا ہے جو لوگوں کی ایذارسانی کے باوجود انہیں معاف کرے، جو لوگوں کی طرف سے اشتعال انگیز سلوک کے باوجود ان کے لیے رحمت کا پیکر بنار ہے۔ آپ کی یہی بلند کر داری ہے جس کی شہادت قرآن میں ان لفظوں میں دی گئی ہے: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ (بے شک تم بلند اخلاق پر ہو)(68:4)
دعوتی تصویر
اسلام ایک دعوت ہے نہ کہ محض ایک تعزیری قانون۔ اسلام کی اوّلین دلچسپی خدا کے بندوں کو خدا کا پرستار بنانا ہے نہ کہ انہیں مجرم قرار دے کر انہیں کوڑا مارنا اور گولی اور پھانسی کا نشانہ بنانا۔
تعزیری قانون کو اس سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ لوگ اس کے بارےمیں کیا رائے قائم کریں گے۔ مگر دعوت کا مزاج اس کے بالکل برعکس ہے۔ داعی لوگوں کو ختم کرنے کے بجائے لوگوں کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے داعی ایسا نہیں کرتا کہ لوگوں کے خلاف اندھا دھند سزائیں جاری کرنا شروع کر دے۔ وہ یک طرفہ طور پر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ انسان کے" حال "سے زیادہ انسان کے" مستقبل" پر نظر رکھتا ہے۔ وہ لوگوں کو معاف کرتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اس کے بارے میں نرم گوشہ پیدا ہو ، وہ لوگوں کے ساتھ خیر خواہی کا انداز اختیار کرتا ہے تاکہ جو لوگ آج اس کے ہجو گو ہیں، کل وہ اس کے مدح خواں بن جائیں۔ جو لوگ ابھی اس کے ساتھی نہیں بنے ، آئندہ وہ اس کے شریک اور ساتھی بن جائیں۔ داعی کا کام غیر کو اپنا بنانا ہے، نہ کہ جو غیر دکھائی دے اس کا دشمن بن کر صرف اس کی ہلاکت کے درپے ہو جانا۔
بدنامی سے بچت
کسی کارخانہ کی خوش نامی اس کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح اسلام کی اشاعت کے لیے اس کی دعوتی تصویر بے حد اہمیت رکھتی ہے۔ اسلام میں یہ بات آخری حد تک مطلوب ہے کہ اسلام کی دعوتی تصویر کو بگڑنے سے بچایا جائے۔ اسلام کی دعوتی تصویر کی حفاظت ہر دوسری چیز پر مقدم ہے حتیٰ کہ توہین رسول اور اہانت اسلام جیسے جذباتی مواقع پر بھی ۔
اس معاملے کی وضاحت کے لیے یہاں عبد اللہ بن ابی بن سلول کی مثال درج کی جاتی ہے۔ یہ شخص مدینہ کے قبیلۂ خزرج کا سردار تھا۔ اس کی غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر مدینہ کے لوگوں نے اس کو اپنا بادشاہ بنانا چاہا۔ اس کے لیے ایک تاج کی تیاری بھی شروع ہو گئی ––––– عین اسی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے ۔ یہاں آتے ہی لوگوں نے آپ کو اپنا بڑا بنا لیا۔ عبد اللہ بن ابی کو اس سے بہت تکلیف پہنچی ۔ حالات کے دباؤ کے تحت اس نے رسول اللہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ تاہم اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغض پیدا ہو گیا۔ وہ اپنے دل کو تسکین دینے کے لیے ساری عمر آپ کی تو ہین وتحقیر کرتا رہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے نکلے۔ آپ ایک گدھے پر سوار تھے۔ راستے میں عبد اللہ بن ابی کا قلعہ نما مکان آیا جس کا نام مزاحم تھا۔ اس وقت عبد اللہ بن ابی کے گرد اس کے قبیلےکے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ وہاں سواری سے اتر پڑے اور عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچ کر اس کو سلام کیا۔ آپ تھوڑی دیر وہاں بیٹھے اور قرآن کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔
راوی ( اسامہ بن زید بن حارثہ) کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بے پروائی کے ساتھ چپ چاپ سنتارہا۔ جب آپ فارغ ہو چکے تو عبد اللہ بن ابی نے کہا : اے شخص، آپ کی یہ بات تو اچھی ہے، لیکن اگر وہ حق ہے تو آپ اپنے گھر میں بیٹھیں اور جو شخص اس کو سننے کے لیے آپ کے پاس آئے اس کو سنائیں، اور جو شخص آپ کے پاس نہ آئے تو اس کو آپ اس کی تکلیف نہ دیں۔ اور ایسے شخص کی مجلس میں اس کا ذکر نہ کریں جو اس کو نا پسند کرتا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبداللہ بن ابی کا یہ قول سخت ناگوار ہوا مگر آپ خاموشی سے آگے بڑھ گئے (سیرت ابن ہشام ، الجزء الثانی ، صفحہ 219)
غزوہ اُحد (شوال 3ھ) میں قریش کا لشکر مکہ سے چل کر مدینہ کے پاس پہنچا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے مشورہ فرمایا۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ہم باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کریں۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ شہر کے اندر ٹھہر کر مقابلہ کیا جائے۔ عبد اللہ بن ابی نے یہی دوسری رائے پیش کی۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گروہ کی رائے کا لحاظ فرمایا اور ایک ہزار آدمیوں کےساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے ۔
جب آپ مدینہ اور احد کے درمیان پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کولے کر اسلامی فوج سے الگ ہوگیا۔ اس طرح اس نے بے حد نازک موقع پر سخت بے وفائی کا ثبوت دیا۔ مزید یہ کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی بھی کی۔ اس نے حقارت آمیز لہجہ میں کہا کہ اس شخص نے دوسروں کی بات مانی اور میری بات نہیں مانی۔ لوگو ، میں نہیں سمجھتا کہ ہم یہاں کس لیے اپنے آپ کو ہلاک کریں (أَطَاعَهُمْ وَعَصَانِي، مَا نَدْرِي عَلَامَ نَقْتُلُ أَنْفُسَنَا هَاهُنَا أَيُّهَا النَّاسُ) (سیرت ابن ہشام ، الجزء الثالث ، صفحہ 8)
غزوہ بنی المصطلق شعبان 6 ھ میں ہوا ۔ اس مہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبد اللہ بن ابی بھی تھا۔ سفر سے واپسی میں ایک واقعہ پیش آیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ قافلہ نے ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ صبح کو اندھیرے میں روانگی ہوئی۔ اس وقت ایک اتفاقی غلطی سے حضرت عائشہ جو آپ کے ساتھ شریک سفر تھیں، قافلے سے پیچھے رہ گئیں۔ سورج نکلنے کے بعد ایک صحابی صفوان بن معطل سُلمی اس جگہ سے گزرے۔ انہوں نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھالیا اور خود اس کی نکیل پکڑ کر آگے چلتے ہوئے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ اس واقعہ کو عبداللہ بن ابی نے خوب استعمال کیا۔ حضرت عائشہ کا اس طرح تنہا ایک نوجوان کے ساتھ آنا ایک ہنگامی سبب سے تھا۔ مگر عبد اللہ بن ابی نے اس کو برے معنی پہنا کر خوب تقریریں کیں۔ اس نے اس واقعے کو پیغمبر کی کردار کشی کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال کیا۔ یہاں تک کہ پورے مدینہ میں آپ کے خلاف شک وشبہ کی فضا پیدا ہوگئی ۔
اس واقعے کی تفصیلات سیرت اور تفسیر کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ قرآن مجید میں بتایاگیا ہے کہ جس شخص نے اس بہتان تراشی میں سب سے بڑا حصہ ادا کیا اس کے لیے عذاب عظیم ہے (النور 11:) اس آیت میں جس شخص کے لیے سب سے بڑے عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد عبداللہ بن اُبی ہے۔ مگر اس کو دنیا میں کوئی سزا نہیں دی گئی۔ اس کے معاملے کو تمام تر آخرت کے لیے چھوڑ دیاگیا۔ چنانچہ وہ مدینہ میں اپنی طبعی موت سے مرا۔
غزوة بنی المصطلق (5 ھ) سے واپسی میں ایسا ہوا کہ پانی کے ایک چشمہ پر پانی لینے کے لیے مسلمانوں کا ہجوم ہو گیا۔ اس وقت ایک مہاجر اور ایک انصاری آپس میں لڑ گئے ۔ مہاجر نے کہا : یا للمھاجرین، انصاری نے کہا : یا للأنصار یہاں تک کہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداخلت فرما کر اس کو ختم کیا۔
عبد اللہ بن ابی پہلے سے اس بات پر خوش نہ تھا کہ مکہ کے مسلمانوں کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ بلاکر انہیں یہاں پناہ دی جائے۔ اس واقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے اپنے قبیلہ والوں کے سامنے اشتعال انگیز تقریر کی۔ اس میں اس نے کہا کہ اپنے کتّے کو پال کر موٹا کرو کہ تمہیں کو کاٹ کھائے ۔ خدا کی قسم، اگر ہم مدینہ واپس پہنچ گئے تو عزت والا ذلت والے کو وہاں سےنکال دے گا۔
عبد اللہ بن ابی کی یہ باتیں سن کر صحابہ کو غصہ آگیا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن مار دوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) تفسیر ابن کثیر، الجزء الرابع ، صفحہ370(
مزید مثالیں
اس طرح کے اور بھی بہت سے واقعات سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں ۔ مثلاً لیث بن سعد نے یحیٰی بن سعید سے ، انھوں نے ابوالزبیر سے روایت کی ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے کہا کہ جعرانہ میں ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ لوگوں کو عطیات دے رہے تھے۔ آدمی نے دیکھ کر کہا کہ اے محمد، انصاف کیجئے ( یا محمد اعدل) آپ نے فرمایا ، تمہارا برا ہو ، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا۔
حضرت عمر نے یہ گفتگو سن کر کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کو قتل کر دوں، آپ نے فرمایا : اللہ کی پناہ کہ لوگ یہ کہیں کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہوں۔( مَعَاذَ اللهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي) سيرة ابن کثیر، المجلد الثالث ، صفحہ 687
غزوہ ٔتبوک کی واپسی میں کچھ منافق قسم کے مسلمان آپ کے ساتھ تھے۔ یہ لوگ مخلص مسلمانوں سے الگ ہوکر بیٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بے ہودہ باتیں کیا کرتے۔ حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا کہ جانتے ہو کہ یہ کون لوگ ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے بتایا کہ یہ لوگ بیٹھ کر آپس میں ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ حضرت حذیفہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، کیا آپ ہمیں اجازت دیں گے کہ ہم انھیں قتل کر دیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ناپسند ہے کہ لوگ یہ چر چاکر یں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (أَكْرَهُ أَنْ يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سيرة ابن كثير،المجلد الرابع ، صفحہ35۔
زیادہ قابلِ لحاظ
ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی اور آپ کے خلاف سب وشتم والے افعال کیے۔ حتیٰ کہ صحابہ کرام کو وہ قابلِ قتل نظر آنے لگے۔ انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر اجازت دیں تو وہ انہیں قتل کر دیں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کی اجازت نہ دی۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اگر میں ان کو قتل کر دوں تو لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اس کو اسلام کو بد نام کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز ہے جو "قتل شاتم" سے بھی زیادہ قابل لحاظ ہے۔ اور وہ اسلام کی دینِ رحمت کی تصویر ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں دعوتی تصویر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسلام کی دعوتی تصویر بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک شخص کے کھلے ہوئے سب وشتم اور اس کی شدید ایذارسانی کے باوجود اس کو قتل نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اسکو نظر انداز کر کے چھوڑ دیا جائے گا۔
اسلام میں سب سے زیادہ قابل لحاظ چیز دعوتی مصلحت ہے۔ دعوتی مصلحت اسلام میں سپریم حیثیت کا درجہ رکھتی ہے۔ دعوتی مصلحت کی خاطر ہر دوسری چیز کو نظر انداز کر دیا جائے گا، خواہ وہ بجائے خود کتنی ہی زیادہ سنگین نظر آتی ہو۔ مسلمانوں کے دلوں کا مجروح ہونا خداا و ررسول کی نظر میں اتنا اہم نہیں ہے جتناکہ دعوتی مصلحت کا مجروح ہونا ۔ اگر کسی معاملےمیں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں تو انہیں اپنے جذبات کو دبانا چاہیے، نہ کہ وہ جذبات کا بے جا اظہار کریں اور دعوت کے قیمتی مصالح کو برباد کر کے رکھ دیں۔
اغیار کو موقع نہ دینا
مذکورہ واقعات میں جن افراد کا ذکر ہے ، ان کی تو ہین رسول اور اسلام دشمنی بالکل واضح تھی۔ اپنے کردار کے اعتبار سے بلاشبہ وہ لوگ اس کے مستحق بن چکے تھے کہ ان کو قتل کر دیا جائے اسی بنا پر صحابہ کرام نے ان کو اعداء اللہ قرار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ اجازت دیجئے کہ ہم خدا اورر سول کے ان دشمنوں کو قتل کر کے ان کا خاتمہ کر دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان اشخاص کو قتل کرتے تو اس کی وجہ یقیناً ان کی اسلام دشمنی ہوتی مگر امتحان کی اس دنیا میں جہاں ہر ایک کو آزادی ہے، آپ کسی کو اس پر مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ وہی الفاظ بولے جو آپ چاہتے ہیں کہ بولا جائے۔ چنانچہ یہ یقینی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر صرف ان کے شتم کو دیکھا اور شتم کی سزا کے بعد پیدا ہونے والے نتائج کو نہیں دیکھا اور ان افراد کو قتل کرایا تو اس کے بعد ایسا نہیں ہو گا کہ لوگ اصل واقعے کے مطابق صرف یہ کہیں کہ "محمد نے اسلام دشمنوں کو قتل کیا ہے"۔ اس کے برعکس یقینی تھا کہ وہ یہ کہیں گے کہ "محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں "ان برے لوگوں کا قتل بجائے خود ایک صحیح فعل تھا ۔ مگر حالات کے اعتبار سے یقینی تھا کہ صحیح ہونے کے باوجود وہ عوام کے درمیان اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں فرمایا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ نہ تھاکہ پہلے قتل کر دیں۔ اور پھر جب لوگ بد نام کریں تو اس کے بعد یہ شکایت کریں کہ لوگ ہم کو غلط طور پر بد نام کرتے ہیں۔ اس کے بجائے آپ کا طریقہ یہ تھا کہ ایسا فعل ہی نہ کیا جائے جس کی وجہ سے لوگوں کو غلط طور پر بدنام کرنےکا موقع ملے۔ اس معاملہ میں یہی حکمت ِنبوی ہے۔
ٹھیک یہی صورت حال آج ہمارے سامنے ہے۔ سلمان رشدی نے بلاشبہ توہینِ رسول اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے ۔ حقیقت واقعہ کے اعتبار سے وہ سخت سزا کا مستحق ہے۔ لیکن مسلمان اگر اس کے خلاف قاتلانہ کارروائی کریں تو ہر گز ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ یہ کہیں کہ مسلمانوں نے ایک اسلام دشمن کو قتل کر دیا۔ بلکہ لازمی طور پر ایسا ہوگا کہ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ مسلمان آزادی ٔفکر کے قاتل ہیں۔اسلام کا اصل انحصار تلوار کی طاقت پر ہے نہ کہ دلیل کی طاقت پر۔
ہمیں اس حقیقت کو جاننا چاہیے کہ موجودہ زمانہ آزادیٔ فکر کا زمانہ ہے ۔ موجودہ زمانے میں آزادی ٔفکر کو سب سے بڑی قدر کا درجہ دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں آزادی خیر اعلیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کا انسان کسی ایسے مذہب یا نظام کو غیر مہذب اور وحشیانہ سمجھتا ہے جو آزادی ٔفکر کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ ایسی حالت میں ، باعتبار نتیجہ سب سے بڑی اسلام دشمنی یہ ہوگی کہ کوئی ایسا عمل کیا جائے جو دنیا والوں کو یہ کہنے کا موقع دے کہ اسلام آزادی ٔفکر کا قاتل ہے، اور اس لیے وہ ایک وحشیانہ مذہب ہے۔ اس معاملہ میں سنتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کو اس" بد نامی "سے بچایا جائے،خواہ اس کی جو بھی قیمت دینی ہو، خواہ اس کے لیے کتنی ہی بڑی چیز کو برداشت کرنا پڑے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام دشمنوں کو قتل نہیں کیا تا کہ لوگوں کے درمیان اسلام کی دعوت کا دروازہ کھلے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اسلام دشمنوں کو قتل کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ لوگوں کے درمیان اسلام کی دعوت کا دروازہ بند ہو جائے، اس قسم کی سرگرمی بلاشبہ سرکشی ہے، اس کاخدا اور رسول کے دین سے کوئی تعلق نہیں ۔