تکمیلِ دین کی طرف
امت کا سفر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری زمانے میں اپنی امت کو ایک جامع نصیحت ان الفاظ میں کی تھی: تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا:كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّه(مؤطا امام مالک، حدیث نمبر 2618)۔ یعنی میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑرہا ہوں، تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے امت کو جو طریقہ بتایا تھا ، وہ یہ تھا کہ امت مسائل میں الجھنے سے بچے، اور معرفت اور دعوت پر فوکس کرے۔اسی میں امت کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہے۔ انسان مسائل میں الجھنے سے منفی سوچ کا شکار ہوتا ہے، جو کہ تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔اسی لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ نصیحت کی تھی:إِذَا أُصِيبَ أَحَدُكُمْ بِمُصِيبَةٍ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فلِيُعَزِّهِ ذَلِكَ عَنْ مُصِيبَتِهِ(مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر 6700)۔ یعنی جب تم میں سے کسی پر  مصیبت آئے تو اپنی مصیبت کے ساتھ وہ میری مصیبت کو یاد کرے۔وہ اس کو اس کی مصیبت کے موقع پر تسلی دے گی۔ یہ سادہ الفاظ میں صرف پیغمبر اسلام کی مصیبت کو یاد کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ سبق حاصل کرنا ہے کہ پیغمبر اسلام نے جس طرح مصیبت (مسائل) کو اگنور کرکے معرفت اور دعوت کا مشن انجام دیا، اسی طرح آج بھی معرفت اور دعوت کا مشن انجام دینا ہے۔  

موجودہ زمانے میں معرفت اور دعوت کے ذرائع کا انفجار ہوچکا ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں بطور پیشین گوئی ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا تھا: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقّ (41:53)۔ یعنی عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ حق ہے۔ اسی طرح قرآن میں ایک دوسرے مقام پر یہ آیا ہے: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا (27:93)۔ یعنی اور کہو کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ عنقریب تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔ 

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کا مقصد آئڈیالاجیکل مواقع کا انفجار تھا۔ یعنی پیغمبر اسلام کی بعثت کے بعد ایک نئے پراسس کا آغاز  تھا۔ یعنی آفاق و انفس کی آیات کے ذریعے دینِ حق کا اظہار۔ لیکن بعد کے مسلم اہل علم، سارے کے سارے، مواقع کو فکری اعتبار سے اویل کرنے کے بجائے سیاسی تحفظ اور جہادبمعنی قتال جیسی باتوں میں لگ گئے۔ اس معاملے میں کسی عالم کا استثنا نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبا ن کا سیاسی ظہور اسی سوچ کا ایک ظاہرہ ہے۔ یہ سب لوگ جہاد اور سیاست کی لائن سے سوچ رہے ہیں۔ اس کے بالمقابل اراءۃ آیات (نشانیوں کے ظہور)کی پیشین گوئی جو قرآن میں کی گئی تھی(فصلت، 41:53) ، اس پہلو سے وہ سوچ نہ سکے۔ 

تزئین یا ڈسٹریکشن 

ایسا کیوں ہوا کہ امت کا فوکس اصل پہلو سے ہٹ گیا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ابلیس کے کیس کو سمجھنا ہوگا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے جب پہلے انسان ، آدم کو پیدا کیا ، اور اس وقت کی موجود مخلوق فرشتے اور ابلیس کے سامنے اس کو پیش کیا تو شیطان نے ناراضگی کے ساتھ کہا تھا : رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (15:39)۔ یعنی ابلیس نے کہا، اے میرے رب، جیسا تو نے مجھ کو گمراہ کیا ہے اسی طرح میں زمین میں ان کے لیے تزیین کروں گا اور سب کو گمراہ کر دوں گا۔

تزیین شیطان کی سب سے خطرناک چال ہے۔اس آیت میں تزیین کا مطلب کچھ مفسرین نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: لأشغلنهم بزينة الدنيا عن فعل الطاعة(تفسیر الماوردی، جلد3، صفحہ 160)۔ یعنی میں ضرور ان کو اطاعت کے عمل سے ہٹا کر دنیا کے فریب میں مشغول کردوں گا۔ لأزيِّننَّ لهم الباطلَ حتى يقعوا فيه (زاد المسیرلابن الجوزی، جلد،2، صفحہ534)۔ یعنی میں ان کے لیے بے نتیجہ باتوں کو مزین کروں گا، یہاں تک کہ وہ اس کا شکار ہوجائیں گے۔ ان تفسیری اقوال کی روشنی میں شیطان کا کام کیا ہوسکتا ہے۔شیطان کی چالوں میں ایک چال ہے تصغیر العظیم اورتکبیر الصغیر( بڑے کو چھوٹا کرنا، اور چھوٹے کو بڑا) ۔غیر حقیقی باتوں کو حقیقی بنا کر پیش کرنا۔غیرمتعلق باتوں کو متعلق اور امپارٹنٹ بناکر پیش کرنا، اور متعلق یا امپارٹنٹ باتوں کو غیر متعلق بنا کر پیش کرنا، وغیرہ۔ 

نیا دور مواقع کے انفجار (opportunity explosion) کا دور ہے۔ لیکن قانونِ فطرت کے مطابق، اس دور میں بھی وہی کامیاب ہوسکتا ہے، جو مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنے کی حکیمانہ پلاننگ کرے۔مسائل کو اگنور نہ کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ شکایتی ذہن کے ساتھ زندگی گزاریں— مغربی قوم سے شکایت، ہندوؤں سے شکایت، پڑوسیوں سے شکایت، آفس کے ساتھیوں سے شکایت، ان زمانی تبدیلیوں سے شکایت جو آپ کی سماجی روایت کے خلاف ہوں، وغیرہ۔

اس کے برعکس، مواقع کو اویل کرنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آپ مسائل کے باوجود یہ دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسا موقع ہے، جس کو اویل کرکے کامیابی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔ اس کا عملی نمونہ حضرت عمر کے یہاں ملتا ہے۔ایک مرتبہ صحابیٔ رسول حذیفہ نےخلیفہ ثانی عمر فاروق سے کہا:إِنَّك تستعين بِالرجلِ الَّذِي فِيهِ وَبَعْضهمْ يرويهِ:بِالرجلِ الْفَاجِر فَقَالَ عمر:إِنِّي أستعمله لأستعين بقوّته ثمَّ أكون على قَفّانه (غریب الحدیث للقاسم بن سلاّم، جلد3، صفحہ 239)۔یعنی تم ایسے آدمی سے مدد طلب کرتے ہو، جو فاجر ہے ۔ عمر نے کہا: میں اس کو عامل بناتا ہوں تاکہ اس کی قوت سے مدد حاصل کروں، پھر میں اس کی نگرانی کر رہا ہوں(تاکہ وہ کوئی غلطی نہ کریں) ۔

یہی ہے مسائل کو اگنور کرکے مواقع کو اویل کرنا۔ یعنی ایک انسان کے اندر برائی ہے، اس کے ساتھ اس میں انتظامی صلاحیت بھی ہے تو حضرت عمر نے ایسے انسان کی برائی کو نظر انداز کیا، اور اس کی صلاحیت سے فائدہ اٹھایا۔ایسا رسول اللہ کی تربیت کا نتیجہ تھا۔ آپ نے بھی ہجرتِ مدینہ کے موقع پر ایک مشرک عبد اللہ بن اریقط کو اپنا رہنما بنایا تھا(سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ 488)۔   

مگرموجودہ زمانےکے مسلمان اَن اویلڈ اپارچنٹی (unavailed opportunity)کا کیس بن گئے ہیں۔موجودہ زمانے میں مغربی تہذیب نے جو سائنسی ڈسکوری کی ہے، اس سے نہ صرف فیزیکل ( جیسے پرنٹنگ پریس، کمپیوٹر، انٹرنیٹ وغیرہ کی) سطح پر خدا کے دین کو مدد ملی ہے۔ بلکہ معنوی سطح پر بھی معرفت کی لامحدود دنیا ڈسکور ہوگئی ہے۔جیسے کائنات کی وسعت، انسانی جسم کی بناوٹ کا مطالعہ، کوانٹم فزکس، وغیرہ۔ یہ ڈسکوریز لامحدود سطح پر انسان کے لیے معرفت کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مادی سطح پر انسان کو مدد ملی، بلکہ معنوی سطح پر بھی انسان کے لیے انٹلکچول ڈیولپمنٹ کا سامان فراہم ہوا ہے۔ 

یہ سائنسی ڈسکوری مغربی اقوام کے ذریعے ظہور میں آئی۔ لیکن موجودہ دور کے تمام مسلم لیڈر سیاسی میدان میں مغلوبیت کی وجہ سے ان سے دشمنی کرنے لگے۔ حالاں کہ سیاسی میدان ایک محدود میدان تھا، جب کہ خدا کی معرفت اور دین کی تائید کا میدان ایک لامحدود میدان تھا۔ لیکن شیطان نے بذریعہ تزئین یہ کیا کہ مسلم لیڈروں کے سامنے سیاسی معاملے کو عظیم بنا کر پیش کیا، اور خدا کی معرفت اور دعوت کے میدان کو غیر حقیقی بنا کر پیش کیا۔ چنانچہ مسلم دنیا سترھویں صدی سے لے کر اب تک اسی تزئین میں پھنسی ہوئی ہے، اور اس سے باہر نہیں نکل پائی ہے۔ 

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی فاجر انسان کے ذریعے اس دین کی تائید کرے گا۔ایک اور روایت میں اس کو’’غیر اہل دین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیاہے:إِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیُؤَیِّدُ الْإِسْلَامَ بِرِجَالٍ مَا ھُمْ مِنْ أَھْلِہ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ یعنی بے شک اللہ تعالی  اس دین کی تائید ان لوگوں کے ذریعے کرے گا جو غیر اہل دین ہوں گے۔

یہ بہت اہم پیشین گوئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں ، جب کہ اسلام اجنبی بن جائے گا،اس وقت یہی بے دین اور غیر اہل دین، خدائی دین کے مددگار ثابت ہوں گے، خواہ بالواسطہ انداز میں ہو یا بلاواسطہ انداز میں۔ یہی لوگ ہوں گےجن کے ذریعے اسلام کا کلمہ روئے زمین کے ہر چھوٹے بڑے گھر میں داخل ہوگا۔ غالباًاسی حقیقت کی طرف رسول اللہ نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:  قَوَامُ أُمَّتِي بِشِرَارِهَا (مسند احمد، حدیث نمبر 21985)۔ یعنی میری امت کا معاملہ اس کے برے لوگوں کے ذریعے درست رہے گا۔

ان تمام آیات و احادیث کو آج کے ریفرنس میں دیکھا جائے تو موجودہ دور کے اعتبار سے ان کا مطلب ایک جملے میں یہ ہوگا کہ سیاسی مسائل کو نظر انداز کرو، اور مواقع کو اویل کرو:

ignore the political problems, avail the opportunities

 قدیم زمانے کی طرح موجودہ زمانے میں بھی مسائل ہیں۔کوئی زمانہ مسائل سے خالی نہیں ہوتا ہے، خواہ وہ ماضی ہو یا حال یا مستقبل۔یہ قانونِ فطرت ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےمیں بھی مسائل تھے۔ مگر آپ نے مسائل سے ٹکراکر اسٹیٹس کو (status quo) کو بدلنے کے بجائے مسائل کے درمیان موجودمواقع کو دعوتی مشن کے لیے اویل کیا۔ کیوں کہ اسٹیٹس کو کو بدلنا گریٹر ایول (greater evil) ہے، اسٹیٹس کو کو اگنور کرکے اپنا مشن شروع کرنا لیسر ایول (lesser evil) ہے۔پیغمبر اسلام نے یہی کیا۔ مثلاً یہ کہ جب آپ نے دعوتی کام شروع کیا تو کعبہ میں بت تھے، مگر آپ نے ان کو نظر انداز کیا، اور بت کے لیے آنے والوں کوپرامن انداز میں توحید کاپیغام پہنچایا۔ چنانچہ یہی لوگ شرک کوچھوڑ کر ایک دن آپ کے ساتھی بن گئے۔یہی تاریخ آج بھی دہرائی جاسکتی ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom