نظریۂ ارتقا

عضویاتی ارتقا (Organic Evolution)جدید دنیا کے لیے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔ سائنس آف لائف کے مصنفین نے لکھا ہے کہ’’عضویاتی ارتقا کے حقیقت ہونے سے اب کسی کو انکار نہیں ہے۔ سوا ان لوگوں کے جو جاہل ہوں یا متعصب ہوں یا اوہام پرستی میں مبتلا ہوں۔‘‘ اس نظریہ کی مقبولیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ لل (R. S. Lull) کی سات سو صفحے کی کتاب میں زندگی کے تخلیقی تصور(special creation) پرصرف ایک صفحہ اور چند سطریں ہیں اور بقیہ تمام صفحات عضویاتی ارتقا کے بارے میں ہیں۔لل لکھتا ہے:

’’ڈارون کے بعد سے نظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اور جاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ یہ واحد منطقی طریقہ ہے جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہو سکتی ہے اور اس کو سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘

Organic Evolution, p.15

 ماڈرن پاکٹ لائبریری(نیویارک) نے(Man and the Universe) کے نام سے کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے۔ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب میں ڈارون کی کتاب’’اصل الانواع‘‘ کو تاریخ ساز تصنیف قرار دیا ہے۔اسی طرح انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1958) میں تخلیق(creationism) کے  نظریہ کو چوتھائی صفحہ سے بھی کم جگہ دی گئی ہے۔

 اس کے مقابلہ میں عضویاتی ارتقا کے عنوان کے تحت جو مقالہ شامل کیا گیا ہے وہ باریک ٹائپ کے پورے چودہ صفحات تک پھیلا ہوا ہے۔ اس مقالے میں بھی حیوانات میں ارتقا کو بطور ایک حقیقت(fact) تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈارون کے بعد اس نظریہ کو سائنس دانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں قبول عام(general acceptance) حاصل ہو چکا ہے۔ دورِ جدید کے اہلِ علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لی ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom