ارتقا کے دلائل
موجوده زمانه كے علمائے حياتيات عام طور پر نظريه ارتقا كو تسليم كرچكے هيں۔ان كا كهنا هے كه ارتقا محض ايك نظريه نهيں، وه ايك مسلمه سائنسي حقيقت هے۔ مگر جهاں تك دليل كا تعلق هے يه دعوي ابھي تك ثابت نه كيا جاسكا۔ نظريه ارتقا ء كے حق ميں تين قسم كي دليليں دي جاتي هيں:
1۔ ماں كے پيٹ ميں انسان كا جنين مچھلي، چھپكلي، سور اور بندر كے جيسي صورتوں سے گزر كر انسان كي صورت تك پهنچتا هے۔ ارتقا پسند علما كے نزديك يه مشاهده اس بات كا ثبوت هے كه انسان اپني تاريخ كے پچھلے دور ميں انھيں جانوروں جيسا تھا۔ ان كے نقطه نظركے مطابق ماں كا پيٹ نو مهينوں ميں انسان كي اس طويل حياتياتي تاريخ كو دهراتا هے جو پيٹ كے باهر اربوں سال كے اندر وقوع ميں آئي تھي۔
2۔ جانوروں اور انسان كے ڈھانچه ميں ايك ارتقائي مشابهت پائي جاتي هے۔ مچھلي سے لے كر انسان تك جانوروں كي جو مختلف قسميں هيں، ان كي هڈيوں كے ڈھانچه كا تقابلي مطالعه كيا جائے تو معلوم هوگا كه ان ميں بنيادي يكسانيت كے ساتھ ايك ارتقائي نسبت هے۔ اوپر كي سطح كے جانور نچلي سطح كے جانور كي ارتقا يافته صورتيں معلوم هوتے هيں۔ حتي كه انسان تك پهنچ كر يه عملِ ارتقا اپني كامل صورت اختيار كرليتا هے۔
3۔ چٹانوں كي تهوں ميں قديم جانداروں كي هڈياں متحجر حالت (fossilised state) ميں پائي گئي هیں۔ چٹانوں كا كيميائي مطالعه بتاتا هے كه ان كي تهيں ايك كے بعد ايك مختلف زمانوں ميں بني هيں۔ اس طرح يه چٹاني تهيں گويا كتابِ فطرت كے اوراق هيں جو ماضي بعيد كي داستان هم كو بتاتے هيں۔ چٹانوں كي مختلف تهوں ميں متحجر هڈيوں كے مطالعه سے دريافت هوا هے كه زمين كے اوپر جانداروں كي جو قسميں پائي جاتي هيں، وه سب كي سب اول روز سے موجود نه تھيں۔ بلكه ان كے ظهور ميں ايك ارتقائي ترتيب هے۔ قديم ترين تهوں ميں مچھلي كي قسم كے جانوروں كي متحجر هڈياں ملتي هيں، پھر چھپكلي كي قسم كے جانور، پھر دودھ پلانے والے جانور، پھر بندر، اور آخر ميں انسان۔
جواب
يه مشاهدات جن كے اوپر ارتقا كي استدلالي بنياد قائم كي گئي هے، وه مشاہدات بجائے خود واقعه هوسكتے هیں۔ مگر خالص علمي اعتبار سے ديكھا جائے تو ان كا كوئي بھي تعلق ارتقا كے مفروضه سے نهيں هے۔ ان كے ذريعه اس نظريه كے حق ميں دليل قائم نهيں هوتي۔
1۔يه بات بجائے خود ايك واقعه هے كه انسان كے بچه كا مشاهده جب ماں كے پيٹ ميں كيا جاتا هے تو ابتدائي ايام ميں اس كے اور جانور كے بچه ميں بهت كم ظاهري فرق هوتا هے۔ بظاهر ايسا معلوم هوتاهے كه وه مچھلي اور چوپائے كي شكلوں سے گزر كر انسان كي صورت اختيار كررها هے۔ مگر صرف اس مشاهده سے يه ثابت نهيں هوتا كه قدرت پانچ سو ملين سال كے عمل كو نو مهينوں ميں دهراتي هے۔ جس قدرت كو اس سے پهلے ايك انسان بنانے ميں پانچ سو ملين سال لگ گئے، وه اب صرف نو مهينوں ميں كروروں انسان كس طرح بنا رهي هے۔ اور اگر قدرت كے عمل كو مختصر كرنا ممكن هے تو ايك عالم حياتيات كے ليے يه ممكن هونا چاهيے كه وه ايك مچھلي كا انڈه لے اور اس كو اپني ليبوريٹري ميں ركھ كر نو مهينے يا نوسال كے اندر اس كو انسان كي صورت ميں تبديل كردے۔ جب كه هم جانتے هيں كه يه بالكل ناممكن هے۔
اس نظريه كے بے بنياد هونے كي اس سے بھي زياده بڑي دليل يه هے كه فرد كي تمام خصوصيات اول روز هي سے جين ميں موجود هوتي هيں۔ بڑا هو كر آدمي جن اوصاف كا حامل هوتاهے، وه سب اس كے اولين ڈھانچه ميں مكمل طورپر موجود رهتاهے۔ اس كا قد، اس كا رنگ، اس كا مزاج، اس كي ذهانت، سب كچھ اول دن هي سے اس كے اندر پايا جاتا هے۔بالفاظ ديگر، انسان كا بچه پهلے دن سے انسان كا بچه هوتا هے، وه كسي لمحه بھي مچھلي يا چھپكلي كا بچه نهيں هوتا۔ ايسي حالت ميں اس سے كوئي فرق نهيں پڑتا هے كه ماں كے پيٹ كے ابتدائي هفتوں ميں اور همارے مشاهدے كے پيمانه ميں وه كس صورت كا دكھائي دے رها هے۔
2۔ ڈھانچه ميں ارتقائي مشابهت سے بھي اصلاً جو بات ثابت هوتي هے وه صرف يه كه مختلف جاندار، اپنے بنيادي ڈھانچه كے اعتبار سے، ايك دوسرے سے بالكل الگ الگ نهيں هيں۔ بلكه ان ميں بعض پهلوؤں سے مشابهت پائي جاتي هے۔ مگر اس سے كسي بھي طرح يه بات ثابت نهيں هوتي كه ايك قسم كا جانور دوسري قسم كے جانور كے پيٹ سے نكلا هے۔ بيل گاڑي، گھوڑا گاڑي اور كار كے ڈھانچوں ميں بعض پهلوؤں سے مشابهت هے۔ مگر اس سے يه نتيجه نكالنا كس قدر عجيب هوگا كه بيل گاڑي كے بطن سے گھوڑا گاڑي نكلي هے اور گھوڑا گاڑي كے بطن سے كار نے جنم ليا هے۔ اور كار كے بطن سے هوائي جهاز بر آمد هوا هے۔
3۔ متحجرات (fossils)كے مشاهده ميں بھي مذكوره بالا نظريه كے ليے كوئي لازمي دليل نهيں هے۔ اس سلسلے ميں طبقاتي ترتيب كو اگر بلا بحث مان ليا جائے تب بھي اس سے جو بات ثابت هوتي هے وه يه كه زمين كے اوپر حيوانات كي آباد كاري ميں ايك ترتيب هے۔ ايك قسم كے جانور ايك زمانه ميں وجود ميں آئے۔ دوسري قسم كے جانور دوسرے زمانه ميں ۔ مثلاً جس زمانه ميں بندر وجود میں آئے، ٹھیک اسی زمانے میں انسانی نسل شروع نہیں ہوئی۔ اسي طرح جس زمانه ميں مچھلياں یا چھپكلياں بنيں، اسی وقت بندر کی نسل کا آغاز نہیں ہوا، وغیرہ۔ یہاں بھی یقیناً وہی آرگمینٹ ہے كه اس سے تخليق كي ترتيب ثابت هوتي هے، نه كه ارتقا كي ترتيب۔یعنی ايك كے پيٹ سے دوسرا، دوسرے كے پيٹ سے تيسرا نكلا۔ يه ايك عليحده مفروضه هے۔ مذكوره مشاهدات ميں اس كے ليے براه راست دليل موجود نهيں هے۔ متحجر هڈيوں كے مطالعه ميں خواه كتني هي احتياط برتي جائے، ان سے جو بات ثابت هوگي، وه صرف يهي هے كه كس قسم كے جانور كي هڈياں كتنے هزار سال سے زمين ميں دفن هيں، نه يه كه كون سا جانور كس كے بطن سے نكلا هے۔
موجوده ارتقائي تحقيقات سے اگر كوئي چيز ثابت هوتي هے تو صرف يه كه زمين پر جو مختلف قسم كے جاندار پائے جاتے هيں وه سب بيك وقت اول روز سے زمين پر موجود نهيں هوگئے هيں۔ بلكه ان كي تخليق ميں ايك زماني ترتیب هے۔ اب سوال يه ره جاتا هے كه هر جاندر اپنے وقت ميں مستقل طورپر پيدا كيا گيا يا ايسا هوا كه بطريق تناسل ايك جاندار كے بطن سے دوسرا جاندار نكلتا رها۔
جهاں تك دوسرے مفروضه كا تعلق هے اس كے حق ميں ابھي تك كوئي دليل يا مشاهده سامنے نهيں آيا ۔ دوسري طرف جاندار اول كي حدتك سائنسداں يه مانتے هيں كه وه پهلي بار مستقل طورپر وجود ميں آيا هے۔ پھر جو مفروضه پهلے جاندار كے ليے صحيح سمجھا گيا هے وهي دوسرے جاندار كے ليے بھي كيوں صحيح نهيں هوسكتا۔ جب كه تحقيقات نے يه بھي ثابت كرديا هے كه پهلا جاندار امیبا (Amoeba) اپنے جسماني نظام ميں بعض اعتبار سے وهي تمام پيچيدگياں ركھتا هے جو آخري جاندار (انسان) ميں پائي جاتي هيں۔ اگر پهلے پيچيده جاندار كو پهلي بار وجود ميں لانا قدرت كے ليے ممكن تھا تو دوسرے پيچيده جاندار كو پهلي بار وجود ميں لانا اس كے ليے كيوں ناممكن هوگيا۔
ایک مثال
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں ایک خبر چھپی تھی۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے:
Belief in God hardwired in our brain
خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میں ایک رسرچ ہوئی ہے جس کا نتیجہ ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپا ہے۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاکے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے:
We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p. 17)
اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے— حقیقی مشاہدات میں اِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقا کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔