انسان کی تخلیق
انسان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔ انسان کی پیدائش کا مقصد انسان کو فطری ترقی کا موقع فراہم کرنا ہے۔ خالق جب زمین پر ایک درخت اگاتا ہے تو وہ درخت کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ زمین کے مواقع کو اویل کرے تاکہ مسلسل طور پر اس کا گروتھ (growth)جاری رہے۔ اب جو درخت ان مواقع کو اویل کرے وہ سرسبز اور بڑا درخت بنے گا، اور جو ایسا نہ کرے، وہ مرجھا کر فوراً ختم ہو جائے گا۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ ۔تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (14:24-26)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمہ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لیے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال ایک خراب درخت کی ہے جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے۔ اس کو کوئی ثبات نہ ہو۔
درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دسترخوان بناتا ہے ، وہ زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لیتا ہے، اور ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک تناور درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔
یہی فطری قانون اعلیٰ پیمانے پر انسان کے لیے جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ عام درخت اگر مادی وجود ہے تو انسان شعوری وجود۔ انسان کے لیے موجودہ دنیا میں نہ صرف مادی ترقی کا موقع ہے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کراس کے لیے ذہنی ترقی (intellectual development) کا موقع حاصل ہے۔ انسان سے اصل مطلوب یہی ذہنی ترقی یا ایمانی ترقی ہے۔ سنسیر (sincere) انسان ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے تو دوسری طرف " اوپر " سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔ وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتا ہے اور خالق سے بھی اس کی قربت برابر جاری رہتی ہے۔
اچھا درخت ہر موسم میں پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتا ہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بےزوری کی۔ ہر موقع پر ایک مومن کی زبان اور اس کا کردار وہی ردعمل ظاہر کرتا ہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔
اہل ایمان کی اس خصوصیت کو ایک حدیث ِرسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999) ۔یعنی مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ اُس کے لیے اُس کے ہر معاملہ میں بھلائی ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو کوئی خوشی ملتی ہے، وہ شکر کرتا ہے تووہ اُس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔ اور اگر اُس کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے ، وہ صبر کرتا ہے تو وہ اس کے لیے بھلائی بن جاتا ہے۔
اس حدیث میں مومن سے مراد مسلم گھر میں پیدا ہونے والا انسان نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہ انسان ہے، جس کو ایمان ڈسکوری کی سطح پر حاصل ہوا ہو، جو تدبر(contemplation) اور تفکر (reflection) کی صفت کا حامل ہو۔ایسا انسان ہر چیز سے اپنے لیے معرفت کی غذا حاصل کرتا ہے۔ وہ چیزوں کو خدائی تخلیق کے اعتبار سے دیکھتا ہے ۔ اس ربانی طرز فکر کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ عسر میں یسر کو دریافت کرلیتا ہے۔ کائنات کے ہر مشاہدہ میں وہ اللہ کا جلوہ دیکھتا ہے۔ زندگی کا ہر خوش گوار تجربہ اُس کو اللہ کی رحمت کی یاد دلاتا ہے، اور زندگی کا ہر تلخ تجربہ اُس کے لیے تقویٰ کا سبب بنتا ہے۔ ناکامی بھی اُس کو خدا کی یاد دلاتی ہے اور کامیابی بھی اُس کو خدا سے قریب کرتی ہے۔