فرق، نہ کہ تبدیلی

24-28ستمبر 1990کوایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے طرابلس (لیبیا) کا میرا ایک سفر ہوا۔اس سفر میں میری ملاقات ایک سیکولر تعلیم یافتہ صاحب سے ہوئی۔ ان سے ڈارون کے نظریہ ارتقا پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ میں ڈارونزم کو نہیں مانتا۔وہ حیرت کے ساتھ میرا چہرہ دیکھنے لگے۔انہوں نے کہا کہ ڈارون کا نظریۂ ارتقا تو ایک ثابت شدہ نظریہ ہے۔پھر کس طرح آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں؟

میں نے پوچھا کہ وہ کیسے ثابت شدہ ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس نظریہ کے علما نے بندر سے لے کر انسان تک کے تمام ڈھانچے (skull) جمع کیے ہیں۔ان کو سلسلہ واررکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک تدریجی تبدیلی (gradual change) ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ جس چیز کو آپ ’’تبدیلی‘‘ کہتے ہیں، اس کو میں اگر ’’فرق‘‘ کہوں تو آپ کے پاس اس کی تردید کی کیا دلیل ہوگی؟

یہ صحیح ہے کہ حیوانات کے درمیان جسمانی بناوٹ کے اعتبار سے فرق کے ساتھ کچھ مشابہتیں بھی ہیں۔ مثلاً ہاتھی اور چوہا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن دونوں ریڑھ کی ہڈی والے جانور ہیں۔ یہی معاملہ انسان اور حیوان کا ہے۔ انسان اور حیوان کے ڈھانچہ میں بھی کچھ مشابہتیں ہے۔ مگر جب تک تجرباتی طور پر یہ ثابت نہ ہو جائے کہ ایک نوع سے دوسری نوع نکلی ہے، اس وقت تک ڈھانچہ کی اس مشابہت کو ارتقائی تبدیلی کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ حالت میں یہ مشابہت صرف فرق کو بتا رہی ہے۔ یعنی ہر ڈھانچہ اپنی ایک مستقل نوع کو بتا رہا ہے، نہ یہ کہ ایک سے دوسرا نکلا۔ دوسرے سے تیسرا اور تیسرے سے چوتھا۔ اور اس طرح ہوتے ہوتے انسان بن گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظریۂ ارتقا کی بنیاد صرف خود ساختہ توجیہات پر ہے، نہ کہ حقیقۃً مشاہدہ اور تجربہ پر۔

جو علماءِ سائنس حیاتیاتی ارتقا کو سائنسی حقیقت کہتے ہیں، ان کے نزدیک اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے مختلف انواع (species) کے جسمانی مظاہر کا معاملہ۔ اور دوسرا ہے ، قانونِ ارتقا کا مطالعہ، جو ارتقا پسند علماکے مطابق، انواع کی تبدیلیوں کے درمیان مخفی طور پر جاری رہتاہے، جس کی بنیاد پر ، ان علما کے مطابق، ایک نوع کے جانور سے دوسرے نوع کا جانور نکلتا ہے۔

ایک ارتقائی عالم جب انواع حیات کے جسمانی مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے تو گویا کہ وہ ’’اشیا‘‘ کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، جب وہ ارتقائی قانون کا مطالعہ کرتا ہے تو اس وقت وہ اپنے موضوع کے اس پہلو کا مطالعہ کر رہا ہوتا ہے جس کو قیاس یاآئڈیا کہا جاتا ہے۔

ہر ارتقائی عالم جانتا ہے کہ دونوں پہلوؤں کے درمیان نوعی فرق پایاجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جہاں تک اشیا (جس کی بنیاد پر شواہدِ ارتقااکٹھا کیے جاتے ہیں)کا تعلق ہے، اس کے براہ راست دلائل قابل حصول ہیں۔ مثال کےطور پر متحجرات (fossils) جو کھدائی کے ذریعہ زمین کی تہوں سے کثرت سے برآمد کیے گئے ہیں، ان کا مطالعہ مشاہداتی سطح پر ممکن ہے۔

اس کے برعکس، قانونِ ارتقا کے معاملہ میں موضوعی شواہد نہ ہونے کی وجہ سے اس پر براہ راست استدلال ممکن نہیں۔مثلاً ارتقائی عمل کے دوران اشکال میں اچانک تبدیلیوں (mutations) کا نظریہ تمام ترقیاسات پر مبنی ہے، نہ کہ براہ راست مشاہدات پر۔ اس دوسرے معاملہ میں خارجی تغیرتو دکھائی دیتا ہے، مگر قانونِ تغیر بالکل نظر نہیں آتا۔ اسی لیے ہر ارتقا پسند عالم، ارتقاکے موضوع کے اس دوسرے پہلو میں بالواسطہ استدلال سے کام لیتا ہے جس کو علم منطق میں استنباطی استدلال (inferential argument) کہا جاتا ہے۔

تبدیلی کا یہ نظریہ ارتقا (evolution)کی بنیاد ہے۔ تاہم اس معاملہ کے دو حصے ہیں۔ اس کا ایک جزء مشاہدہ میں آتا ہے،یعنی اشیا۔ مگر اس کا دوسرا جزء مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے۔ وہ صرف استنباط کے اصول سے کام لے کر فلسفہ ٔ ارتقا میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ ایک عام واقعہ ہے کہ انسان یا جانور سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے۔ ان میں مختلف اعتبار سے کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اس حیاتیاتی مظہر کا سائنسی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ رحم مادر میں بچہ کے جینز کے اندر اچانک طور پر خود بخود تبدیلیاں (spontaneous  changes) پیدا ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والے بچوں میں فرق کا سبب ہیں۔

اولاد میں ایک دوسرے کے درمیان یہ فرق ایک مشاہداتی واقعہ ہے۔ مگر اس کے بعد اس مشاہدہ کی بنیاد پر ڈارون نے جو ارتقا کا فلسفہ بنایا ہے وہ مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ ہے، وہ صرف قیاسی استنباط کے ذریعہ تسلیم کر لیا گیا ہے۔ گویا اشیااور ان کے ڈھانچے کےدرمیان بناوٹ کا فرق قابل مشاہدہ ہے، مگر ایک نوع سے دوسرے نوع کے نکلنے کامفروضہ ارتقائی قانون ناقابل مشاہدہ۔

یہاں ارتقاپسند عالم یہ کرتا ہے کہ ایک سرے پر وہ ایک بکری کو رکھتا ہے اور دوسرے سرے پر ایک زرافہ کو۔ اس کے بعد وہ فاصل کے کچھ درمیانی نمونوں کو لے کر یہ نظریہ بناتا ہے کہ ابتدائی بکری کے کئی بچوں میں سے ایک بچہ کی گردن اتفاقاً کچھ لمبی تھی۔ اس کے بعد اس لمبی گردن والی بکری کی اولاد ہوئی اس میں گردن کی لمبائی کچھ اور بڑھ گئی۔ اسی طرح کروروں سال کے دوران گردن کی یہ لمبائی نسل در نسل جمع ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ابتدائی بکری کی اگلی اولاد آخر کار زرافہ جیسا جانور بن گئی۔ اسی نظریہ کے تحت چارلس ڈارون نے اپنی کتاب اصل الانواع (On the Origin of Species)میں لکھا ہے کہ مجھ کو یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ ایک معمولی کُھردار چوپایہ زرافہ جیسے جانور میں تبدیل ہو سکتا ہے:

...it seems to me almost certain that an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe. (p. 169)

اس معاملہ میں بکری کی اولاد میں فرق ہونا بذات خود ایک معلوم واقعہ ہے۔ مگر اس فرق کا کروروں سال تک نسل در نسل جمع ہوتے ہوئے اس کا زرافہ بن جانا، مکمل طور پر ناقابل مشاہدہ اور ناقابل تجربہ ہے۔ ارتقا کا نظریہ ایک جانور اور دوسرے جانور کے درمیان نظر آنے والے فرق کی بنیاد پر استنباط کے ذریعہ اخذ کیا گیاہے، نہ کہ براہ راست طور پر خود مشاہدہ کے ذریعہ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom