ارتقا علم كي كسوٹي پر

حياتياتي ارتقا كے متعلق چارلس ڈارون كي كتاب 1859 ميں شائع هوئي تو مغربي اقوام كے درميان اس كو غير معمولي مقبوليت حاصل هوئي۔ اس كتاب ميں زندگي كي پيدائش كے بارے ميں جو نظريه پيش كيا گيا تھا وه اس كے نام سے ظاهر هے۔ اس كے پهلے ايڈيشن ميں ٹائٹل پر حسبِ ذيل نام درج تھا:

The Origin of Species of Natural Selection, or the Preservation of Favoured Species in the Struggle for Life.

ڈارون كے نظريه كا خلاصه يه تھا كه كسي جاندار سے جب چند بچے پيدا هوتے هيں تو ان ميں تھوڑا تھوڑا فرق هوتا هے۔ ان ميں سے كسي كا فرق اس كو دوسرے هم جنسوں كے مقابله ميں زياده بهتر پوزيشن ميں كرديتاهے، اسي بنا پر وه زنده رهتا هے اور دوسرے ختم هوجاتے هيں۔ يه فرق توالد وتناسل كے ذريعه بڑھتا رهتا هے۔ يهاں تك كه لاكھوں سال ميں يه نوبت آتي هے كه ايك نوع كا جانور دوسري نوع ميں تبديل هوجاتا هے۔ مثلاً بكري كا گھوڑا بن جانا۔ اس طرح مختلف جاندار ارتقا كي سيڑھيوں پر چڑھتے رهتے هيں يهاں تك كه انسان وجود ميں آجاتا هے۔

بظاهر اس خوبصورت نظريه ميں بهت سے خلا تھے۔ مثلاً يه كه ارتقا اگر ايك مسلسل عمل هے تو كيوں ايسا هے كه زمين كے طبقات سے حاصل هونے والے متحجرات صرف كمال كے مرحله كو پهنچے هوئے انواع حيات كا نمونه پيش كرتے هيں۔كيوں نه ايسا هوا كه درمياني مرحله كي قسميں بھي كثير تعداد ميں موجود هوتيں۔ يعني ايسے جانور جو آدھا ايك جيسے هوں اور آدھا دوسرے جيسے:

If evolution has been a continuous process, why does the fossil record only show us apparently settled and established species. Why does it not include an  abundance of intermediate forms.

ڈارون كا جواب يه تھا كه فاسلز كا ذخيره ابھي ناتمام هے۔ آئنده جب زياده فاسلز دستياب هوچكے هوں گے تو يه كمي دور هوجائے گي۔ ڈارون كے بعد مزيد بهت زياده فاسلز انسان كے علم ميں آئے۔ مگر مذكوره كمي اس كے باوجود بدستور باقي رهي۔

اس قسم كي كثير خاميوں كے باوجود ڈارونزم كو كيوں اتني زياده مقبوليت حاصل هوئي۔ اس كي وجه يه تھي كه يه نظريه 19ويں صدي كے مغربي انسان كي نوآبادياتي توسيع پسندي كے عين مطابق تھا۔ برٹرينڈرسل كے الفاظ ميں ’’يه آزاد اقتصاديات كے اصول كونباتات اور حيوانات كي دنيا تك وسيع كرنا تھا:

It was an extension to the animal and vegetable world of laissez-faire economics.

نظریہ ارتقا کے دلائل جس معیارِ استد لال پراترتے ہیں، وہ کون سا معیار ہے۔ یعنی نظریۂ ارتقا   کا براہ راست تجربہ نہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا، جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔ڈارونزم ایک ایسا نظریہ ہے، جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کیا گیا ہے، یہ صرف ’’عقیدہ‘‘ ہے۔ پھراس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ اے ای مینڈر کے الفاظ میں یہ ہے:

1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ(consistent) ہے۔

2۔ اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھے نہیں جا سکتے۔

3۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔

Clearer Thinking, p. 112

یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لیے معیارِ استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے، یہی استدلال زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے، ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کے لیے ناقابلِ قبول ٹھہراتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom