نینڈر تھل مین
نظريهٔ ارتقا كے حاميوں نے بهت سے ’’قديم انسان‘‘ دريافت كيے هيں۔ مثلاً پلٹ ڈاؤن مين، نينڈر تھل مين (neanderthal man)، پيكنگ مين، جاوا مين وغيره۔ قديم انسان كي يه تمام صورتيں فاسل كي بنياد پر بنائي گئي هيں جو زمين ميں كھدائي سے برآمد هوئي هيں۔ نظريهٔ ارتقا زندگي كي مختلف قسموں كے ليے جس عمل كو فرض كرتا هے اس كے مطابق درمياني انواعِ حيات (intermediate species) كا وجود بھي لازماً هونا چاهيے۔ مگر ايسي انواع ابھي تك گم شده كڑيوں كي حيثيت ركھتي هيں۔ ڈارون نے تسليم كيا تھا كه درمياني انواعِ حيات كے نمونے همارے پاس موجود نهيں هيں۔ تاهم ڈارون كے بعد قديم فاسلز كي بنياد پر بهت سي عجيب وغريب انساني شكليں بنائي گئي هيں۔ اور يه فرض كيا جاتا هے كه يه انساني سلسلهٔ حيات كي قديم ارتقائي كڑياں هيں۔
انھيں ميں سے ايك نينڈر تھل مين هے جو جرمني كي نينڈر نامي وادي كي طرف منسوب هے۔ اس قسم كي هڈياں اور ڈھانچے 1856سے 1908تك ايشيا ، يورپ، شمالي افريقه كے تقريباً 50 مقامات پر ملے۔پروفيسر بول (Marcellin Boule) نے ان ٹكڑوں كا مشاهده كركے ان كي جو تعبير كي، اس كو عام طور پر تسليم كرتے هوئے اس كو ابتدائي انساني سلسلے كي ايك كڑي مان ليا گيا— گم شده كڑيوں ميں سے ايك كڑي معلوم كرلي گئي۔
نينڈر تھل مين كي تصويريں كتابوں ميں چھپنے لگيں۔ حتى كه اس كے مجسمے بن گئے۔ مگر بعد كو علمائے حياتيات نے جو تحقيقات كيں، اس نے بتايا كه پروفيسر بول نے اندازه كرنے ميں كئي اهم غلطياں كي تھيں۔ 1955ميں وليم اسٹرابس (جانسن هاپكنس يونيورسٹي) اور اے۔جے۔ اي۔كيو (لندن) نے نينڈر تھل مين كے بنائے گئے ڈھانچه كا از سر نو جائزه ليا۔ يه رپورٹ مكمل طورپر كوارٹرلي ريويو ميں چھپ چكي هے:
Quarterly Review of Biology XXXIII (1957)
محققين لكھتے هيں كه نينڈر تھل مين كا ڈھانچه ،جو کہ 40-50سال كي عمر كے ايك آدمي كا ڈھانچہ لگتا هے، وه گٹھيا كي بيماري نے آدمي كے نچلے جبڑے اور اس كي گردن اور پورے ڈھانچه كو متاثر كيا۔ اس آدمي كے سركا آگے كي طرف جھكاؤ جو پروفيسر بول نے نوٹ كيا تھا، وه كم ازكم جزئي طورپر، اس كي بيماري كے سبب سے تھا۔ حقيقةً اس آدمي كا ڈھانچه ويسا هي تھا جيسا آج ايك اوسط فرانسيسي آدمي كا ڈھانچه۔ حتي كه جديد تحقيقات نے يه بھي بتايا هے كه نينڈر تھل كے دماغ (brain) كا سائز بھي تقريباً وهي تھا جو آج ايك اوسط يورپي شخص كا هوتا هے۔ اس كے بال درست كركے اور موجوده لباس پهنا كر كھڑا كرديا جائے تو آج كے مهذب انسان سے وه كچھ بھي مختلف معلوم نهيں هوگا۔ حال ميں نينڈرتھل مين كے جو مزيد فاسلز ملے هيں وه بھي ثابت كرتے هيں كه وه ابتدائي كڑي نهيں بلكه آج كے ايك انسان كي مانند تھا۔ نينڈر تھل انسان، لفظ انسان كے تمام مفهوم كے اعتبار سے مكمل انسان تھا۔
F. Clark Nowell, Early Man, New York, Time-Life Book, 1968, pp. 123-24
امریکاکے ایک کمپیوٹر اسپیشلسٹ مسٹر ڈیوڈ (David Coppedge) جو ناسا (NASA) میں ایک بڑی پوسٹ پر تھے، اُن کو سروس سے نکال دیاگیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ تخلیق کے بارے میں انٹیلی جنٹ ڈزائن (intelligent design) کے تصور کو مانتے تھے۔این بی سی نیوز (12 مارچ 2012) کے مطابق،ان کا خیال تھا کہ — تخلیق میں ضرور ایک بالاتر طاقت کا ہاتھ ہے کیوں کہ زندگی اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ وہ تنہا ارتقائی عمل کے ذریعے وجود میں نہیں آسکتی:
a higher power must have had a hand in creation because life is too complex to have developed through evolution alone .
www.nbcnews.com/id/wbna46701591 (accessed on 03.11.21)
ایک امریکی اسکالر جان ویسٹ (John West) نے اِس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیوڈ کا ریمارک ڈارون کے نظریہ ارتقا کو مشتبہ ثابت کرتاہے، جب کہ ماڈرن طبقے کا یہ حال ہے کہ اس نے ایسے کسی بھی شخص کے خلاف عملاً ایک جنگ چھیڑ رکھی ہے جو ڈارون سے اختلاف کرے۔