زمانے کے مطابق عمل
قدیم زمانہ دستکاری کا زمانہ تھا۔ ہر آدمی اپنا کام خود کرتا تھا۔ موجودہ زمانہ انڈسٹری کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر کام میں پورا سماج شامل (involve) ہوتا ہے۔ اس بنا پر موجودہ زمانے میں ایک نیا کلچر وجود میں آیا ہے، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ کلچر (interdependent culture)کہا جاسکتا ہے، یعنی ہر آدمی کا دوسرے آدمی پر منحصر (نربھر) ہونا۔
قدیم بادشاہت کے زمانے میں لوگوں کے درمیان جو مساوات (equation) تھی، وہ حاکم اور محکوم کی تھی۔ جدید دور میں دنیا میں جمہوریت کا نظام آیا۔ اب مساوات (equation) کا معاملہ بالکل بدل گیا۔ اس معاملے میں نئی مساوات پولٹیکل لیڈر اور ووٹر کی بنیاد پر قائم ہوئی۔ قدیم بادشاہوں کو ووٹر کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ صرف ایک بات جانتا تھا، فوج کے ذریعہ لوگوں کو زیر کرکے ان کے اوپر حکومت قائم کرنا۔
نئی مساوات کے زمانے میں حاکم اور محکوم کے درمیان نیا تعلق قائم ہوا۔ اب حاکم (political leader) کو ووٹر کی ضرورت ہے۔ اس نئے دور میں ووٹر کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی مرضی کی حکومت قائم کرے۔ اس طرح ایسا ہوا کہ ووٹر کو پولیٹکل لیڈر کی ضرورت ہوگئی، اور پولیٹکل لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ۔ اس کے بعد دنیا میں پہلی بار وہ نظام آیا، جس کو انٹر ڈپنڈنٹ نظام کہا جاتا ہے۔
اس طرح دنیا میں نئے مواقع پیدا ہوگئے۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ ہر ایک دوسرے کی ضرورت بن کر اپنا فائدہ حاصل کرے۔ پولیٹکل لیڈر اور ووٹر ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔ اسی طرح تاجر اور خریدار دونوں ایک دوسرے سے فائدہ اٹھائیں۔ اب نہ کسی کو لڑنے کی ضرورت ہے، اور نہ کسی کو شکایت کی ضرورت ۔ انٹر ڈپنڈنٹ کے نئے نظام میں ہر ایک کو اصولا ًوہی حیثیت مل گئی ہے، جو اس سے پہلے مراعات یافتہ طبقہ(privileged class) کے لیے مخصوص سمجھی جاتی تھی۔ ہر ایک کے لیے وہ تمام مواقع یکساں طور پر کھل گئے، جو پہلے کچھ خاص طبقے کو حاصل تھے۔
نئے سماج میں یہ ہوا کہ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت، اور ووٹر کو لیڈر کی ضرورت۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت، اور مریض کو ڈاکٹر کی ضرورت۔ دوکاندار کو کسٹمر کی ضرورت، اور کسٹمر کو دوکاندار کی ضرورت۔ اس طرح موجودہ زمانے میں ایک نیا سماج بنا، جس میں کسی ایک شخص کو عملاً وہی مواقع حاصل ہوگئے، جو کسی دوسرے شخص کے لیے مخصوص سمجھے جاتے تھے۔
اس دو طرفہ سسٹم کی بنا پر موجودہ زمانے میں ہر آدمی کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ وہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے حاصل کرے۔ صرف ایک شرط کے ساتھ ،اور وہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ دوسرے کے لیے اپنی طرف سے کوئی پرابلم کھڑا نہ کرے۔ وہ دوسروں کے لیے مکمل طور پر پرابلم فری (problem-free)انسان بن جائے۔ وہ اگر دوسروں سے کچھ پاناچاہتا ہے، تو وہ دوسروں کو کچھ دینے والا بن جائے، نہ کہ صرف لینے والا۔ یہی وہ کلچر ہے، جس کو عام زبان میں گیو اینڈ ٹیک (give and take) کلچر کہا جاتا ہے۔ اس نئے دور نے شکایت کے تصور کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔