رسول اللہ کی سنت
سنتِ رسول کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے— قول، عمل اور تقریر۔ تاہم قدیم کتابوں میں قول ، عمل اور تقریر کی جو صورتیں بتائی گئی ہیں، وہی کل مثالیں نہیں ہیں۔ رسول اللہ کی زندگی سے استنباط کرکے ان مثالوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا۔
مثال کے طور پر کعبہ کو جس قرآن میں بیتِ اول (پہلی مسجد) کہا گیا ہے، اس کو پیغمبر ابراہیم نے تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے قدیم مکہ میں تعمیر کیا تھا۔ اس کے ایک عرصہ بعد قدیم مکہ میں ایسے لوگوں کا غلبہ ہوگیا،جو توحید کے بارے میں زیادہ حساس نہیں تھے۔ انھیں میں سے ایک شخص کا نام عمرو بن لحی تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ کعبہ کے اندر بت لا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد وہاں دھیرے دھیرے بتوں میں اضافہ ہوتا رہا، یہاں تک کہ عملاً کعبہ ایک بت خانہ بن گیا۔ جس وقت رسول اللہ کو پیغمبر بنایا گیا، اس وقت کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ گویا کعبہ جو کہ توحید کا مرکز تھا، بعد میں اس کو بت پرستی کا مرکز بنا دیا گیا۔
یہ واقعہ پیغمبر توحید کے لیے بظاہر ایک اشتعال انگیز واقعہ تھا۔ لیکن آپ نے اس واقعے پر صبر سے کام لیا، آپ نے اس واقعے کو ایک نئے اینگل سے دیکھا، اوروہ موقع (opportunity) کا اینگل تھا۔ یعنی منفی پہلو کو نظر انداز کرکےیہ دیکھنا کہ اس میں دعوت کے لیے مواقع کیا ہیں ۔ آپ نے دریافت کیا کہ کعبہ عرب کے تمام قبائل کے بت پرستوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس بنا پر وہاں روزانہ بڑی تعداد میں بت پرست قبائل کے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ آپ نے اس اجتماع کو دعوت کے اینگل سےدیکھا، اور اس اجتماع کو دعوتی مشن کے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کرنا شروع کردیا۔ آپ کعبہ میں بتوں کی عبادت کے لیے اکٹھا ہونے والے لوگوں کے پاس جاتے ، وہاں آپ لوگوں کے سامنے کعبہ میں رکھے گئے بتوں کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرتے تھے، بلکہ پر امن انداز میں آپ لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے تھے۔
رسول اللہ کا یہ عملی نمونہ بھی ایک سنت ہے کہ دعوت کے لیے بظاہر ناموافق صورت حال کو موافق میں تبدیل کرنا،یعنی پیش آمدہ اشتعال انگیز صورتِ حال پر ری ایکٹ نہ کرنا، اور اس میں موجود مواقع کو دعوت کے لیے استعمال کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے مسائل کی جڑ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے معاملات میں اس سنت رسول پر عمل نہیں کیا۔
مثلاً ایک مسلمان مضمون نگار نے ایک اردو میگزین میں ایک مضمون لکھا،جس کا ٹائٹل یہ تھا— بھارتی مسلمان: سیاسی و سماجی کسمپرسی ۔ یہ صورتِ حال کو مسائل کے اعتبار سے دیکھنا ہے۔ یہ سنت ِ رسول کے خلاف عمل ہے۔ سنت ِ رسول کے مطابق عمل کرنا یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان مسائل کے درمیان کیا مواقع ہیں ، جو فرد کو اور سماج کو ترقی میں مدد دے سکتے ہیں۔