فکری کنفیوژن

حدیثِ رسول میں بعد کے زمانہ کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اس میں بتایاگیاہے کہ یہ دور فتنۂ دہیماء کا دور ہوگا۔ فتنۂ دہیماء کا مطلب ہے کالا فتنہ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت زیادہ اندھیرا (utter darkness) ہوگا۔ یہ اندھیرا مادی روشنی کےاعتبار سے نہیں ہوگا بلکہ اس اعتبار سے ہوگا کہ لوگوں کے لیے سچائی کا راستہ گم ہوجائے گا۔ اس دور کے لیے حدیث میں یہ الفاظ بھی آئےہیں کہ اس زمانہ میں اسلام کا صرف نام باقی رہے گا، اور قرآن کا صرف رسم الخط باقی رہے گا(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1763)۔

حدیث کی اس پیشین گوئی کو میں نے ایک سفر کے دوران سمجھا۔اس سفر کے دوران میری ملاقات کچھ تعلیم یافتہ مسلمانوں سےہوئی۔ گفتگو کے دوران کسی نے کہا کہ ہمارے لیے نقطۂ آغازکیا ہے (مِن این نبدأ)۔ کسی نے کہا کہ ہمارے لیے لائحۂ عمل (line of action) کیاہے۔ گویاکہ لوگ اس امر میں مشتبہ ہوگئے ہیں کہ موجودہ حالات میں کرنے کا صحیح کام کیا ہے۔

غور کرنے سے سمجھ میں آتاہے کہ یہ فقدان اجتہاد (lack of ijtihad) کا مسئلہ ہے۔موجودہ زمانہ مکمل طور پر ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ سوچنےکا انداز، کام کرنے کا طریقہ، وقت کے مطابق پلاننگ، رائے قائم کرنے کے پیمانے ،سب یکسر طور پر بدل گئےہیں۔اب روایتی طریقہ زمانے کے اعتبار سے غیر متعلق (irrelevant) ہوگیا ہے۔ جو چیزیں پہلےمسلّمہ سمجھی جاتی تھیں، وہ اب ناقابل قبول بن گئی ہیں۔ایسی حالت میں جس چیز کی ضرورت ہے وہ فتوی کی زبان نہیں ہے کہ لوگوں کو سادہ طورپر امر اور نہی (dos & don’ts) کی فہرست بتادی جائے۔ یہ صورت حال دراصل نئے اجتہاد کی طالب ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام دور حاضر میں بے جگہ(misfit) ہوگیا ہے، بلکہ یہ مسائل کو ریڈیفائن (redefine) کرنے کا وقت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کا از سرنو مطالعہ کیا جائے۔ اب ضرورت ہےکہ مجتہدانہ ذہن کے تحت اسلام کی از سر نو تطبیق (reapplication) تلاش کی جائے۔ اس سے کم درجہ کی کوئی رہنمائی موجودہ دور میں کافی نہیں ہوسکتی۔

مثال کے طورپر وطنیت (patriotism) کا تصور پہلے زمانہ میں مذہب سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ مگر موجودہ جمہوری زمانہ میں وہ ایک سیکولر سبجکٹ(subject)بن گیاہے۔ اس معاملہ میں ضرورت ہے کہ اس معاملہ کو مجتہدانہ ذہن کے ساتھ دیکھا جائے، اور دنیا سے ہم آہنگی اختیار کرتےہوئے وطنیت کو ایک سیکولر سبجکٹ قرار دیا جائے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہر مقام پر مسلمان بے جگہ (displaced persons) بنے ہوئے ہیں۔

اسی طرح شریعت کے نفاذ کے بارے میں عام طورپر ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے جو تشدد کا سبب بن رہی ہے۔ اسی نوعیت کی ایک مثال یہ ہے— پاکستان کے دو شہروں کوئٹہ اور پارا چنار میں بم دھماکے ہوئے جس میں 43 لوگ مارے گئے اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔ اس سلسلہ میں پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے کوئٹہ کے حملہ کی ذمہ داری لیتے ہوئے نیوز ایجنسی کو ایک خط لکھا جس کا ایک جملہ یہ تھا—— کوئٹہ پر حملے جاری رہیں گے اس وقت تک جب تک کہ سچا شریعت سسٹم پاکستان میں لاگو نہیں ہوگا:

“Our attacks will continue until a true shariah system is enforced in Pakistan”. (The Times of India, June, 24, 2017)

موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر یہ سخت خطرناک غلط فہمی (extremely dangerous misunderstanding)پیدا ہوگئی ہے کہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ شریعت کے قانون کو وہ دنیا میں نافذ (implement) کریں۔ یہ بلاشبہ ایک بے بنیاد تصور ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ انفرادی سطح پر شریعت کے قانون کی پرامن انداز میں پیروی کریں۔مثلاً قرآن میں آیا ہے کہ أَقِیمُوا الصَّلَاةَ (نماز قائم کرو)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازکو اس کی اسپرٹ کے ساتھ ادا کرو، اور نماز والی اسپرٹ کو اپنی پوری زندگی میں قائم کرو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom