اسلام میں جہاد
اسلام میں جہادبالسیف (مسلح جہاد) کا مقصد صرف ایک تھا ختم ِ فتنہ، یعنی مذہبی جبر (religious persecution)کا خاتمہ۔ دورِ جدید میں مذہبی جبر کا خاتمہ ہوچکا ہے، اس لیے اس زمانے میں مسلح جہاد قابلِ عمل (applicable) نہیں ہے۔ اس دور میں جہاد کی بات کرنی، یقینی طور پر بے خبری کی بات ہے۔ جہاد بالسیف کا حکم اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:(ترجمہ)ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو اس کے بعد سختی نہیں ہے مگر ظالموں پر (2:193)۔اس آیت میں صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ جہاد بالسیف صرف ختم فتنہ تک کے لیے ہے۔ جب فتنہ ختم ہوجائے تو جہاد بالسیف کا دور بھی موقوف ہوجائے گا۔ مسلح جہاد کے تعلق سے قرآن کی ایک دوسری آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَرْصُوصٌ (61:4)۔ یعنی اللہ تو ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں گویا وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔
اس دوسری آیت کا مطالعہ پہلی آیت کے ذیل میں کیا جائے گا۔ یعنی اس آیت میں جس جہاد کا ذکر ہے، وہ پہلی آیت کی طرح ایک مشروط حکم ہے، نہ کہ غیر مشروط حکم۔ یعنی جب فتنہ کے ختم کے لیے قتال جاری ہو تو اس وقت دوسری آیت (یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِہِ صَفًّا ) ایک مطلوب حکم ہوگا۔ لیکن جب فتنہ کا زمانہ ختم ہوجائے، تو اس وقت جہادکرنابھی موقوف ہوجائے گا۔ختم ِ فتنہ کے لیے قتال اس لیے ضروری تھا کہ فتنہ کی وجہ سے دنیا میں مذہبی آزادی (religious freedom) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام نے مذہبی آزادی کو امر ممنوع (forbidden)قرار دے دیا تھا۔ یہ کلچر خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھا۔ اس بنا پر ضروری تھا کہ بادشاہت کی قائم کردہ اجارہ داری کے دور کو ختم کردیا جائے، تاکہ خالق کے نقشے کے مطابق دنیا میں مذہبی آزادی کا دور آجائے۔