حدیث ، عارفانہ کلام

حدیثِ رسول کو پڑھتے ہوئے مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے، ایک ایسی کیفیت جو قرآن سے کسی قدر مختلف ہوتی ہے۔ ایساکیوں ہوتاہے، اِس کا سبب آج میری سمجھ میں آیا۔ یہ اُس فرق کی بنا پر ہے جو قرآن اورحدیث کے درمیان پایا جاتا ہے۔ قرآن دراصل حقیقت کا بیان (statement of fact) ہے۔ اِس کے مقابلے میں حدیث گویا ایک عارفِ کامل کا کلامِ معرفت ہے، جس نے خود اس معرفت کا تجربہ کیا ہو۔ قرآن کا مطالعہ آدمی کے اندر رب العالمین کی عظمت پیدا کرتاہے، اور حدیث کے مطالعے سے آدمی کو معرفت رب کا ذائقہ ملتاہے۔

مثال کے طور پر جب آپ قرآن میں پڑھتے ہیں:أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِکْرِی(20:14)۔یعنی میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ اس میں آپ کو ایک متعین حکم ملتا ہے۔ آپ کے اندر یہ شعور جاگتا ہے کہ آپ اپنے رب کے اس حکم کو عملاً اختیار کریں۔ آپ اپنے رب کے اطاعت گزار بن جائیں۔ اس کے برعکس، جب آپ حدیثِ رسول میں یہ پڑھتے ہیں : رَأْسُ الْحِکْمَةِ مَخَافَةُ اللَّہِ(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔یعنی حکمت کا سرا اللہ کا خوف ہے۔ آپ کا ذہن اس میں سوچنے لگتا ہے۔ اس قول میں جو معنوی گہرائی ہے۔ آپ اس کی سوچ میں غرق ہوجاتے ہیں۔ آپ کے لیے یہ قول صرف قول نہیں رہتا، بلکہ وہ اسرارِ معانی کا خزانہ بن جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے کہ اللہ کا ڈر آپ کے لیے حکمت کا خزانہ بن جائے۔اس کا سبب یہ ہے کہ خوفِ خدا کا احساس آپ کے ذہن کے بند دروازے کو کھول دیتا ہے۔المناوی نے اس حدیث کی شرح ان الفاظ میں کی ہے: أَی أَصْلہَا وأسہا الْخَوْف مِنْہُ لِأَنَّہَا تمنع النَّفس عَن المنہیات والشبہات وَلَا یحمل على الْعَمَل بہَا أَی الْحِکْمَة إِلَّا الْخَوْف مِنْہُ (التیسیر بشرح الجامع الصغیر ، جلد2، صفحہ23)۔ یعنی حکمت کی اصل اور جڑ اللہ کا خوف ہے، کیوں کہ وہ نفس کو منہیات اور شبہات سے روکتا ہے، اور حکمت کے مطابق عمل پر صرف اللہ کا خوف ابھارتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom