اسلام میں جنگ
اسلام میں جنگ سلبی مقصد کے لیے ہے، اسلام میں جنگ ایجابی مقصد کے لیے نہیں۔ یعنی اسلام میں جنگ کسی مانع (obstacle) کو دور کرنے کے لیے ہے، نہ کہ مطلوب (desired) گول کو قائم و نافذ کرنے کے لیے۔ اس سلسلے میں قرآن کی ایک رہنما آیت یہ ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ (8:39)۔ یعنی اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب اللہ کے لیے ہوجائے۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو اللہ دیکھنے والا ہے ان کے عمل کا۔
اس آیت میں واضح طو رپر جنگ کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ فتنہ عملاً ختم ہوجائے۔ صحابی رسول عبد اللہ بن عمر نے فتنہ کو یہاں شرک جارح کے معنی میں لیا ہے(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4514)۔ دوسرے لفظوں میں اس کو مذہبی جبر (religious persecution) کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جبر کرنے والے اگر اپنے جبر سے باز آجائیں، اور لوگوں کو مذہب پر آزادانہ عمل کرنے کا موقع دے دیں، تو اس کے بعد ان سے جنگ ختم کردی جائے گی۔ اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ فتنہ کو ختم کرکے عادلانہ حکومت قائم کرو۔ اس تفسیر کا تعلق قرآن کی اس آیت سے نہیں۔
کچھ لوگ خود ساختہ تشریح کے تحت اس آیت کا مطلب یہ بتاتے ہیں کہ فتنہ(شرک) کا نظام ختم کرو، اور عدل (اسلام)کا نظام قائم کرو۔ اس طرح کا مفہوم وہ قرآن کی آیتأَقِیمُوا الدِّینَ (42:13)سے بھی اخذ کرتے ہیں۔ حالاں کہ اس آیت میں دین کی اقامت کا مطلب بذاتِ خود دین کی پیروی کرناہے،نہ کہ دین کا مکمل نظام لوگوں کے اوپر عملاً نافذ (enforce) کرنا۔اسی طرح قرآن میں اعْدِلُوا (المائدۃ، 5:8) کا حکم آیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدل کا نظام لوگوں کے اوپرنافذ کرو،بلکہ اس کا درست مطلب، صحابی رسول عمار بن یاسر کے الفاظ میں اس طرح ہوگا کہ تمھارااپنی ذات کے اعتبار سے عدل کرنا(الإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِکَ)۔ صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب نمبر 18۔