حکم اللہ کا

قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: إِنِ الْحُکْمُ إِلَّا لِلَّہِ (12:40) ۔ یعنی حکم صرف ایک اللہ کا ہے۔ اس طرح کی آیات میں حکم کا لفظ سیاسی حکم (political rule) کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ فوق الطبیعی حکم (supernatural rule) کے معنی میں ہے۔اس کا مطلب پولٹکل سائنس کی کتابوں سے نہیں معلوم ہوگا، بلکہ اس کا مطلب قرآن کی آیتوں میں غور و فکر سے معلوم ہوگا۔

اس طرح کی آیتوں میں حکم کا لفظ اس قانون کے لیے نہیں آیا ہے، جو اسمبلی میں یا پارلیمنٹ میں بنایا جاتا ہے، اور جس کو وزیرِ قانون یا عدالت کے جج نافذ کرتے ہیں۔ بلکہ اس طرح کی آیتوں میں حکم سے مراد وہ برتر حکم ہے، جو اللہ رب العالمین نے براہ راست طور پر اپنے فرشتوں کے ذریعہ عالم وجود میں نافذ کر رکھا ہے۔ اس حکم سے مراد وہ حکم ہے، جس کو یاد کرنے سے انسان کے اندر شکر اور عبادت کی اسپرٹ پیدا ہوتی ہے، جو آدمی کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اس دنیا میں شاکر اور عبادت گزار بن کر زندگی گزارے۔ مثلاً سورج کا نکلنا، آکسیجن کی سپلائی کا نظام، بارش کا نظام، زمین سے غلہ پیدا ہونے کا نظام، ہواؤں کے چلنے کا نظام، زمین پر لائف سپورٹ سسٹم قائم کرنے کا نظام، وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار چیزیں جو اس دنیا میں انسان کو فطرت کے نظام کے تحت حاصل ہیں۔ یہ سب نظام اللہ رب العالمین کے حکم کے تحت وقوع میں آتے ہیں۔ اس حکم کی دریافت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرے، اور اللہ کو اپنا معبود سمجھ کر صرف اسی کی عبادت کرے۔

اگر کوئی شخص اس طرح کی قرآنی آیتوں کو لے کر دنیا میں سیاسی تحریک چلائے، اور حکمرانوں کو قیادت سے بے دخل کرنے کے لیے ان سے لڑائی شروع کردے تو یہ اس حکم کی تعمیل نہیں ہوگی، بلکہ اس حکم کے نام پر ایک تخریب کاری کی سیاست چلانا ہوگا۔ یہ اللہ کے نام پر ایک باغیانہ فعل کا ارتکاب ہوگا۔ قرآن کی اس طرح کی آیتوں کا کوئی تعلق پولٹکل اکٹوزم (political activism)سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تمام تر تعلق اس سے ہے کہ انسان اس دنیا میں شکر اور عبادت کی زندگی گزارے، وہ دنیا میں رحمٰن کا بندہ (الفرقان، 25:63-74) بن کر زندگی گزارے ۔

حکومت کا معاملہ

موجودہ دنیا پورے معنوں میں اللہ رب العالمین کی سلطنت ہے۔ دنیا کی ہر چیز کو محدود مدت کے لیے اللہ نے انسان کے چارج میں دے دیا ہے۔ اسی میں سے حکومت کا معاملہ بھی ہے، جس طرح زمین کا زرعی رقبہ (agricultural land) عارضی طو رپر انسان کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کو استعمال کرے، اسی طرح انسان کو یہ موقع بھی عارضی طور پر دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں سویلائزیشن بنائے۔ یہ مدت صرف قیامت تک کے لیے ہے۔ قیامت کے بعد انسان کا اختیار ختم ہوجائے گا، اور اس کو اپنے عمل کے مطابق، اس کی جزا یا سزا دی جائے گی۔

یہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ حکومت دوسری اشیاء سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ حکومت کا اختیار بھی انسان کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ آخرمیں انسان کا اس اعتبار سے حساب لیا جائے گا، اور انسان کو اس کے عمل کے مطابق، جزا یا سزا دی جائے گی۔ قرآن میں اس حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:( ترجمہ) لوگوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ اور زمین ساری اس کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور تمام آسمان لپٹے ہوں گے اس کے داہنے ہاتھ میں۔ وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (39:67)۔

حدیث میں مزید یہ الفاظ آئے ہیں:یَطْوِی اللہُ عَزَّ وَجَلَّ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، ثُمَّ یَأْخُذُہُنَّ بِیَدِہِ الْیُمْنَى، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ، أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ. ثُمَّ یَطْوِی الْأَرَضِینَ بِشِمَالِہِ، ثُمَّ یَقُولُ:أَنَا الْمَلِکُ أَیْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَیْنَ الْمُتَکَبِّرُونَ؟ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2788)۔ یعنی اللہ تعالی قیامت کے دن آسمان کو لپیٹ کر اپنے دائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین، پھر وہ زمین کو اپنے بائیں ہاتھ میں رکھے گا، پھر کہے گا، میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں جبار، کہاں ہیں متکبرین — یہ اس وقت ہوگا جب کہ انسان کی آزادی اس دنیا میں ختم ہوجائے گی۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom