انتقام نہیں

میں نے تقریبا ًتمام مشہور مذاہب کا مطالعہ کیاہے۔ میں نے پایا کہ ہر مذہب میں ایک تعلیم مشترک ہے۔ اسلوب اور انداز مختلف ہے، لیکن تعلیم کا خلاصہ ایک ہے۔وہ ہے، انتقام نہ لینا۔ کسی سے کوئی تکلیف پہنچے، تو اس کو درگزر کردینا۔ہر ایک سے اچھا سلوک کرنا، خواہ اس نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہو۔ یہ اخلاقی تعلیم ہر مذہب میں مشترک طو رپر پائی جاتی ہے۔

میں نےغور کیا کہ یہ تعلیم تمام مذاہب میں کیوں ہے، اور یہ کہ یہ صرف ایک اخلاقی تعلیم ہے، یا اس میں کوئی وزڈم ہے۔ اخلاق کا تصور تعلیم کو محدود کرتا ہے، لیکن اگر اس تعلیم میں کوئی وزڈم دریافت کی جائے، تو وہ تعلیم اپنی نوعیت میں ایک یونیورسل اصول بن جاتا ہے۔غور و فکر کے بعد میں نے پایا کہ یہ اصول ایک اعلیٰ وزڈم پر مبنی ہے۔ یہ ایک یونیورسل اصول ہے، نہ کہ محدود معنوں میں صرف ایک اخلاقی تعلیم۔

یہ تعلیم آپ کے ایک عمل کو ڈبل گڈ (double good) بنا دیتی ہے۔ آپ کا ایسا عمل آپ کو ڈبل بلیسنگ (double blessing) کا مستحق بنادیتا ہے۔ ایسے اصول پر عمل کرنا، آپ کی شخصیت میں ڈبل ارتقا کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی کے ساتھ ایک اچھا سلوک کریں، آپ اس کے ساتھ نیکی کا ایک معاملہ کریں۔ آپ کا ایسا کرنا، ایک درجہ کی نیکی ہے۔ لیکن اگر کسی نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے، اور آپ اس کے ساتھ رد عمل کا انداز اختیار کرتے ہوئے، خودبھی اس کے ساتھ ایک برا سلوک کریں، تو آپ دوسرے کے برے سلوک کابدلہ لے لیتے ہیں۔ اس طرح آپ کا اور دوسرے کا معاملہ برابر ہوجاتا ہے۔

اس کے برعکس، اگر آپ جوابی عمل کا طریقہ یا ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، تو آپ ڈبل بلیسنگ کے مستحق بن جاتے ہیں۔ ایک ہے، انتقام نہ لینا، اور دوسرا ہے دوسرے کے ساتھ یک طرفہ طور پر نیکی کا معاملہ کرنا۔ غور کیجیے تو ہر مذہب میں اس طرح کے سلوک کا طریقہ موجود ہے۔مثلاً رام چندر کا درجہ ہندوؤں میں بہت بڑا ہے۔ رام چندر کا قصہ بیان کیاجاتا ہے کہ کوئی ان پر غصہ ہوگیا۔ اس نے اپنے پاؤں سے رام چندر کے سینے پر ماردیا۔ رام اس کے جواب میں غصہ نہیں ہوئے، انھوں نے مذکورہ آدمی کو اپنے گلےسے لگا لیا، اور کہا: میرے لوکھنڈ سینے سے تمھارے کومل پاؤں کو چوٹ تو نہیں لگی۔ اس آدمی نے پوچھا کہ میں نے آپ کے ساتھ ایک غلط کام کیا، اور آپ میرے ساتھ اتنا اچھا معاملہ کیوں کررہے ہیں۔ رام نے کہا تمھیں تو اس قابل ہو کہ تم کو گلے سے لگایا جائے، کیوں کہ تمھارے اندر ایک برائی ہے۔ برائی کی اصلاح برائی سے نہیں ہوتی، بلکہ برائی کی اصلاح اچھائی سے ہوتی ہے۔ یہی تعلیم مسیحیت کی بھی ہے۔ مثلا ًنئے عہد نامہ کی تعلیم ہے:

Love your enemies, do good to those who hate you, bless those who curse you, pray for those who mistreat you. (Luke 6:27-28)

اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے دوسرا شخص آپ کے ساتھ دشمنی کا معاملہ کرے، آپ پھر بھی اس کے ساتھ محبت کا معاملہ کیجیے۔ یہی تعلیم اسلام کی بھی ہے۔ مثلاً قرآن میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے: وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرا شخص تمھارے ساتھ غصہ دلانے والا معاملہ کرے، تب بھی غصہ نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ یک طرفہ طور پر عفو ودرگزر کا معاملہ کرو۔

یہ تعلیم اس لیے ہے کہ جب آدمی ردعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ یک طرفہ طور پر دوسروں کے ساتھ اچھائی کا معاملہ کرے، تو وہ ڈبل ریوارڈ کا مستحق بن جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا، دوسرا یہ کہ انتقام کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس یک طرفہ سلوک میں حکمت یہ ہے کہ ایک غلط معاملہ کرنے کے بعد چین ری ایکشن نہیں بنتا، بلکہ بات وہیں کی وہیں ختم ہوجاتی ہے۔ گویا یہ نیپنگ ان دی بڈ (nipping in the bud) کی عملی صورت ہے۔ یعنی شروع میں ہی ختم کر دینا ، پوری طرح پھولنے پھلنے نہ دینا ۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom