تاریخ کے فکری مغالطے
فلسفہ قیاسی علوم (speculative sciences) میں سے ایک علم ہے۔ فلسفہ قدیم ترین شعبۂ علم ہے۔ دنیاکے بڑے بڑے دماغ فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول رہے ہیں۔ لیکن لمبی تاریخ کے باوجود فلاسفہ کا گروہ انسان کو کوئی مثبت چیز نہ دے سکا، بلکہ فلسفے نے صرف انسان کی فکری پیچیدگیوں میں اضافہ کیا۔ فارسی شاعر نے بالکل درست طور پر کہا ہے:
فلسفی سِرِّ حقیقت نہ توانست کشود گشت رازِ دگر آں راز کہ افشامی کرد
فلسفہ نے انسان کو جو چیزیں دیں، ان کو ایک لفظ میں فکری مغالطہ کہا جاسکتا ہے، یعنی ایسے قیاسات جو حقیقت واقعہ پر مبنی نہ ہوں۔ افکار کی تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔
تمام فلسفیوں کی مشترک غلطی یہ رہی ہے کہ ہر ایک کے ذہن میں چیزوں کا ایک معیاری ماڈل (ideal model) بسا ہوا تھا، جو کبھی اور کسی دور میں حاصل نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ فلسفیوں کا یہ ماڈل دنیا کے بارے میں خالق کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ خالق نے موجودہ دنیا کو امتحان کے لیے پیدا کیا ہے، نہ کہ انعام کے لیے۔ اسی امتحان کے لیے انسان کو آزادی دی گئی ہے۔ یہ امتحانی آزادی اس راہ میں رکاوٹ ہے کہ اس دنیا میں کبھی کوئی معیاری نظام بن سکے۔
معیاری نظام صرف اس وقت بن سکتا ہے جب کہ تمام لوگ بغیر استثناء اپنی آزادی کو بالکل صحیح صورت میں استعمال کریں، تاہم مختلف اسباب سے ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔ اس لیے اس دنیا میں معیاری نظام کا بننا بھی کبھی ممکن نہیں۔ تاریخ کے تمام فلسفی اس حقیقت سے بے خبر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فلسفی اپنے ذہنی ماڈل کے مطابق، معیاری نظام کا خواب دیکھتے رہے۔ مگر فطرت کے قانون کے مطابق، ان کا یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ یہاں بطور نمونہ چند مثالیں درج کی جاتی ہیں:
1-افلاطون (Plato) قدیم یونان کا مشہور فلسفی ہے۔ اس نے 387 ق م میں ایتھنز (Athens)میں ایک رائل اکیڈمی قائم کی۔ اس کا مقصد حکمراں طبقہ (ruling elite) کو ایجوکیٹ کرکے فلاسفر کنگ بنانا تھا۔ اس کا نشانہ یہ تھا کہ اس اکیڈمی میں تیار شدہ فلاسفر کنگ یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کریں گے جو ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ کی اسٹیٹ ہوگی۔ شہزادہ الگزنڈر (Alexander) افلاطون کا محبوب شاگرد تھا۔ اپنے باپ فلپ کے مرنے کے بعد 336 میں وہ یونان کا بادشاہ بنا۔ لیکن شاہی تخت پر بیٹھنے کے بعد ہی وہ فلاسفر کنگ کے بجائے اکسپلائٹر کنگ (exploiter king) بن گیا۔ آیڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کے بجائے اس کا نشانہ یہ ہوگیا کہ وہ ساری دنیا میں اپنا عالمی اقتدار قائم کرے۔ افلاطون کے خواب کے بجائے وہ لارڈ ایکٹن کے اس قول کا مصداق بن گیا:
Power corrupts and abslute power corrupts absolutely.
آئڈیل ازم کا یہ فلسفیانہ تصور پوری تاریخ میں چھایا رہا ہے۔ آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل سماج، آئڈیل نظام کا نشانہ ہمیشہ تمام فلسفیوں اور مفکروں کا خوب صورت خواب رہا ہے، مگر یہ خواب کبھی پورا نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ خواب اس غلط فکری پر مبنی تھا کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل زندگی صرف جنت میں قابل حصول ہے۔ موجودہ دنیا صرف اس لیے بنی ہے کہ انسان یہاں اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کرے، تاکہ وہ مرنے کے بعد جنت کی آئڈیل دنیا میں جگہ پاسکے۔ جس طرح ایک طالب علم کو امتحان ہال کے اندر اپنا مطلوب جاب نہیں مل سکتا، اس طرح موجودہ دنیا میں کسی انسان کو آئڈیل جنت بھی ملنے والی نہیں۔
2-انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنسی مشاہدے کا طریقہ دنیا میں رائج ہوا تو فلسفیوں کے اندر ایک نیا فکر پیدا ہوا جس کا یہ کہنا تھا کہ حقیقت وہی ہے جو قابلِ مشاہدہ (observable) ہو، جو معلوم سائنسی طریقوں کے مطابق قابل تصدیق (verifiable) ہو۔ اسی سوچ کے تحت مختلف اسکول آف تھاٹ بنے۔ مثلاً انیسویں صدی کا فرنچ فلسفی آگسٹ کامٹے(Auguste Comte) کا پازیٹیوازم (Positivism) اوربیسویں صدی کے جرمن فلاسفر رڈولف کارنیپ (Rudolf Carnap) کا لاجیکل پازی ٹیوازم وغیرہ۔
اس قسم کے مفکروں اور فلسفیوں نے تقریباً سوسال تک دنیا بھر کے ذہنوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو چیز مشاہدہ میں نہ آئے وہ حقیقت بھی نہیں۔ ان نظریات کے تحت وہ فلسفہ پیدا ہوا جس کو سائنسی الحاد(scientific atheism) کہاجاتا ہے۔ ان نظریات کے مطابق، خدا اور مذہب کا عقیدہ علمی اعتبار سے بے بنیاد ثابت ہوگیا۔
علمی حلقوں میں سائنسی الحاد پر چرچا جاری تھا کہ خود سائنس نے اس نظریے کو بے بنیاد ثابت کردیا۔سائنس میں یہ تبدیلی اس وقت آئی جب کہ سائنس دانوں نے اس حقیقت کو دریافت کیا جس کو کوانٹم میکینکس (quantum mechanics) کہاجاتا ہے۔ اس دریافت کو عظیم ترین فکری فتح (greatest intellectual triumph) کہاجاتا ہے۔ اس سائنسی نظریہ کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ ایٹمی ذرات کو امواج (waves) سمجھا جانے لگا۔ اس سائنسی دریافت میں خاص طورپر حسب ذیل سائنس دانوں کے نام شامل ہیں:
Paul Dirac, Heisenberg, Jordan, Schrodinger, Einstein
اس سائنسی دریافت نے قدیم نیوٹانین میکینکس کو علمی طورپر قابل رد قرار دے دیا۔ اب علم کا دریا عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world) تک پہنچ گیا، یعنی دکھائی دینے والی چیزوں کے علاوہ نہ دکھائی دینے والی چیزیں بھی علم کا موضوع بن گئیں۔