ذبحِ عظیم
قرآن کی سورہ نمبر 37 میں حضرت ابراہیم کے واقعے کا ذِکر ہے۔ آپ نے اپنے ایک خواب کے مطابق، اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا۔ اُس وقت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے نے بتایا کہ تمھاری قربانی قبول ہوگئی، اب تم بیٹے کے بدلے ایک دنبہ ذبح کردو۔ چناں چہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ اُس موقع پر قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وفدیناہ بذِبحٍ عظیم (الصّافات: 107) یعنی ہم نے اسماعیل کو ایک عظیم قربانی کے ذریعے بچا لیا۔
اِس آیت میں ذِبح عظیم (عظیم قربانی) کا لفظ اسماعیل کے لیے آیا ہے، نہ کہ دنبہ کے لیے۔ دنبہ کو حضرت ابراہیم نے بطور فدیہ ذبح کیا، اور اسماعیل کو ایک عظیم تر قربانی کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ یہ عظیم تر قربانی کیا تھی، وہ یہ تھی کہ اِس کے بعد اسماعیل کو اپنی ماں ہاجرہ کے ساتھ مکہ کے صحرا میں آباد کر دیا گیا، تاکہ اُن کے ذریعے سے ایک نئی نسل تیار ہو۔ اُس وقت یہ علاقہ صرف صحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں اسبابِ حیات میں سے کوئی چیز موجود نہ تھی۔ اِس لیے اس کو قرآن میں ذبحِ عظیم کا درجہ دیاگیا۔
یہ عظیم قربانی، اللہ تعالیٰ کا ایک منصوبہ تھا، جس کو فرزند ِ ابراہیم (اسماعیل) کے ذریعے عرب کے صحرا میں عمل میں لایا گیا۔ قرآن (إبراہیم: 37) میں اِس واقعے کا ذکر مختصر اشارے کے طورپر آیا ہے اور حدیث میں اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔
ہاجرہ پیغمبر ابراہیم کی بیوی تھیں۔ اُن سے ایک اولاد پیدا ہوئی جس کا نام اسماعیل رکھا گیا۔ ایک خدائی منصوبہ کے تحت، حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اوراُن کے چھوٹے بچے (اسماعیل) کو عرب میں مکہ کے مقام پر لے جاکر بسا دیا جو اُس وقت بالکل غیر آباد تھا۔ اس واقعہ کے بارہ میں قرآن میں مختصرطورپر یہ حوالہ ملتا ہے:
“اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب، اس شہر کو امن والا بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ میرا ہے۔ اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو تو بخشنے والا، مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک بے کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور اُن کو پھلوں کی روز ی عطا فرما، تاکہ وہ شکر کریں ‘‘۔ (إبراہیم:35-37)۔
ہاجرہ کے بارے میں قرآن میں صرف مختصر اشارہ آیا ہے۔ تاہم حدیث کی مشہور کتاب صحیح البخاری میں ہاجرہ کے بارے میں تفصیلی روایت موجود ہے۔ یہ روایت یہاں نقل کی جاتی ہے:
“عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے ہاجرہ نے کمر پٹّہ باندھا تاکہ سارہ کو اُن کے بارے میں خبر نہ ہوسکے۔ پھر ابراہیم، ہاجرہ اور اُن کے بچے اسماعیل کو مکہ میں لے آئے۔ اُس وقت ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں۔ ابراہیم نے ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں ایک بڑے درخت کے نیچے بٹھا دیا جہاں زمزم ہے۔ اُس وقت مکہ میں ایک شخص بھی موجود نہ تھا اور نہ ہی وہاں پانی تھا۔ ابراہیم نے کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کی ایک مشک وہاں رکھ دیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ ہاجرہ اُن کے پیچھے نکلیں اور کہا کہ اے ابراہیم، ہم کو اس وادی میں چھوڑ کر آپ کہاں جارہے ہیں، جہاں نہ کوئی انسان ہے اور نہ کوئی اور چیز۔ ہاجرہ نے ابراہیم علیہ السلام سے یہ بات کئی بار کہی اور ابراہیم نے ہاجرہ کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ہاجرہ نے ابراہیم سے کہا کہ کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ ہاں۔ ہاجرہ نے کہا پھر تو اللہ ہم کوضائع نہیں کرے گا (إذن لا یُضَیِّعُنَا)۔ ہاجرہ لوٹ آئیں۔ ابراہیم جانے لگے۔ یہاں تک کہ جب وہ مقامِ ثنیہ پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو اُنہوں نے اپنا رخ ادھر کیا جہاں اب کعبہ ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی کہ: اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد کو ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کچھ نہیں اُگتا، یہاں تک کہ آپ دعا کرتے ہوئے لفظ یشکرون تک پہنچے۔
ہاجرہ اسماعیل کو دودھ پلاتیں اور مشک میں سے پانی پیتیں۔ یہاں تک کہ جب مشک کا پانی ختم ہوگیا تو وہ پیاسی ہوئیں اور ان کے بیٹے کو بھی پیاس لگی۔ انھوں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ پیاس سے بے چین تھا۔ بیٹے کی اس حالت کو دیکھ کر وہ مجبور ہو کر نکلیں۔ انھوں نے سب سے قریب پہاڑ صفا کو پایا۔ چناں چہ وہ پہاڑ پر چڑھیں اور وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ کوئی شخص نظر آجائے۔ وہ کسی کو نہ دیکھ سکیں۔ وہ صفا سے اتریں۔ یہاں تک کہ جب وہ وادی تک پہنچیں تو اپنے کُرتہ کا ایک حصہ اُٹھایا پھر وہ تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح دوڑیں۔ وادی کو پار کرکے وہ مروہ پہاڑ پر آئیں۔ اُس پر کھڑے ہو کر اُنہوں نے دیکھا تو کوئی انسان نظر نہ آیا۔ اس طرح اُنھوں نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ ان دونوں کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ پھر وہ مروہ پر چڑھیں۔ اُنہوں نے ایک آواز سُنی۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگیں کہ چپ رہ۔ پھر سُننا چاہا تو وہی آواز سُنی۔ اُنہوں نے کہا کہ تو نے اپنی آواز مجھ کو سنا دی تو اس وقت ہماری مدد کرسکتا ہے۔ دیکھا تو مقام زمزم کے پاس ایک فرشتہ ہے۔ فرشتہ نے اپنی ایڑی یا پنکھ زمین پرمارا، پانی نکل آیا۔ ہاجرہ اُس کو حوض کی طرح بنانے لگیں اور ہاتھ سے اُس کے گرد مینڈ کھینچنے لگیں۔ وہ پانی چلّو سے لے کر اپنی مشک میں بھرتیں۔ وہ جس قدر پانی بھرتیں چشمہ اُتنا ہی زیادہ اُبلتا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہاجرہ پر رحم کرے، اگر وہ زمزم کو اپنے حال پر چھوڑ دیتیں، یا آپ نے یہ فرمایا کہ اگر وہ چلّو بھر کرپانی نہ لیتیں تو زمزم ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ہاجرہ نے پانی پیا اور اپنے بیٹے کو پلایا۔ فرشتہ نے ہاجرہ سے کہا کہ تم ضائع ہونے کا اندیشہ نہ کرو۔ یہ اللہ کا گھر ہے۔ یہ بچہ اور اُس کے باپ دونوں اس گھر کو بنائیں گے اور اللہ اپنے گھر والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اُس وقت گھر (کعبہ) ٹیلے کی طرح زمین سے اونچا تھا۔ سیلاب آتا اور وہ اس کے دائیں بائیں جانب سے نکل جاتا۔ کچھ دنوں تک ہاجرہ نے اسی طرح زندگی گزاری۔ یہاں تک کہ جُرہُم قبیلہ کے کچھ لوگ یا جرہم کے گھر والے کدا کے راستہ سے آرہے تھے۔ وہ مکہ کے نشیبی حصہ میں اُترے۔ اُنھوں نے وہاں ایک پرندہ کو دیکھا جو گھوم رہا تھا۔ وہ کہنے لگے کہ یہ پرندہ تو پانی پر گھومتا ہے۔ ہم اس وادی میں رہے ہیں اور یہاں پانی نہ تھا۔ اُنہوں نے ایک یا دو آدمی کو خبر لینے کے لیے وہاں بھیجا۔ اُنہوں نے پانی دیکھا۔ وہ واپس لوٹ کر گئے اورلوگوں کو پانی کی خبر دی۔ وہ لوگ بھی آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ پانی کے پاس تھیں۔ اُنہوں نے ہاجرہ سے کہا کہ کیا تم ہم کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دیتی ہو۔ ہاجرہ نے کہا کہ ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاجرہ خود چاہتی تھیں کہ یہاں انسان آباد ہوں۔ اُن لوگوں نے یہاں پر قیام کیا اور اپنے گھر والوں کو بھی بُلا بھیجا، وہ بھی یہیں ٹھہرے۔ جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اسماعیل جوان ہوگئے اور اسماعیل نے جرہم والوں سے عربی زبان سیکھ لی۔ جرہم کے لوگ اُن سے محبت کرنے لگے تو اُنہوں نے اپنی ایک لڑکی سے اُن کا نکاح کردیا۔ ہاجرہ کا انتقال ہوگیا۔ جب اسماعیل کا نکاح ہوچکا تو ابراہیم اپنی اولاد کو دیکھنے آئے۔ اُنہوں نے وہاں اسماعیل کو نہیں پایا۔ چنانچہ اُن کی بیوی سے اُن کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے اُس سے اُن کے گزر بسر اور حالت کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ ہم تکلیف میں ہیں۔ ہم بہت زیادہ تنگی میں ہیں۔ اُس نے ابراہیم سے شکایت کی۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنا اور اُن سے یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دیں۔ جب اسماعیل آئے۔ اُنھوں نے کچھ محسوس کرلیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ ایک بوڑھا شخص اس اس صورت کا آیا تھا۔ اُنہوں نے آپ کے بارہ میں پوچھا، میں نے اُن کو بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ ہماری گزرکیسے ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی تکلیف اور تنگی سے۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا اُنہوں نے تم سے اور کچھ کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنھوں نے مجھ سے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے۔ انھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تم کو چھوڑ دوں۔ تم اپنے گھر والوں میں چلی جاؤ۔ اسماعیل نے اُس کو طلاق دے دی۔ اور جرہم کی ایک دوسری عورت سے اُنہوں نے نکاح کرلیا۔ ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جس قدر اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد ابراہیم اسماعیل کے یہاں آئے تو پھر اُن کو نہیں پایا۔ وہ اسماعیل کی بیوی کے پاس آئے اور اُس سے اسماعیل کے بارہ میں پوچھا۔ اُس نے کہا کہ وہ ہمارے لیے رزق کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ابراہیم نے کہا کہ تم لوگ کیسے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم لوگ خیریت سے ہیں اورکشادگی کی حالت میں ہیں۔ اُس نے اللہ عزّوجل کی تعریف کی۔ ابراہیم نے کہا کہ تمہارا کھانا کیا ہے۔ اُس نے کہا کہ گوشت۔ ابراہیم نے کہا کہ تم کیا پیتے ہو۔ اُس نے کہا کہ پانی۔ ابراہیم نے دعا کی کہ اے اللہ، تو اُن کے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت مکہ میں اناج نہ تھا۔ اور اگر وہاں اناج ہوتا تو ابراہیم اس میں بھی برکت کی دعا کرتے۔ مکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے لوگ اگر گوشت اور پانی پر گزر کریں تو وہ اُن کو موافق نہ آئے۔ ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آئیں تو تم اُن کو میرا سلام کہنااور میری طرف سے اُن کو یہ حکم دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ پس جب اسماعیل آئے تو اُنہوں نے کہا کہ کیا تمہارے پاس کوئی شخص آیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ہاں، ہمارے پاس ایک اچھی صورت کے بزرگ آئے تھے اور اُس نے آنے والے کی تعریف کی۔ اُنہوں نے مجھ سے آپ کے بارہ میں پوچھا تو میں نے اُنہیں بتایا۔ اُنہوں نے مجھ سے دوبارہ ہمارے گزر بسر کے بارہ میں پوچھا۔ میں نے اُنھیں بتایا کہ ہم خیریت سے ہیں۔ اسماعیل نے کہا کہ کیا انھوں نے تم سے کچھ اور بھی کہا ہے۔ اُس نے کہا کہ ہاں۔ اُنہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو باقی رکھیں۔ اسماعیل نے کہا کہ وہ میرے باپ تھے اور تم چوکھٹ ہو۔ اُنھوں نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے پاس باقی رکھوں۔ پھر ابراہیم اپنے ملک میں ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا۔ اس کے بعد وہ آئے اور اسماعیل زمزم سے قریب ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے تیر درست کررہے تھے۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو وہ کھڑے ہوگئے۔ پس انھوں نے وہی کیا جو ایک باپ اپنے بیٹے سے اور ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ ابراہیم نے کہا کہ اے اسماعیل، اللہ نے مجھ کو ایک حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا کہ پھر جو آپ کے رب نے حکم دیا ہے اُسے کر ڈالیے۔ ابراہیم نے کہا کہ کیا تم میری مدد کروگے۔ اسماعیل نے کہا کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ اللہ نے مجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤں اور ابراہیم نے اس کے گرد ایک بلند ٹیلہ کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت اُن دونوں نے گھر کی بنیاد اٹھائی۔ اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے، یہاں تک کہ جب دیوار اونچی ہوگئی تو اسماعیل یہ پتھر (حجر اسود) لائے اور اُس کو وہاں رکھ دیا۔ ابراہیم اُس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرتے تھے اور اسماعیل اُن کو پتھر دیتے تھے۔ اور وہ دونوں کہتے تھے کہ —اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر، بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے۔ پس وہ دونوں تعمیر کرتے اور اس گھر کے ارد گرد یہ کہتے ہوئے چکر لگاتے کہ اے ہمارے رب، تو ہماری طرف سے یہ قبول کر۔ بیشک تو بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے‘‘۔
صحیح البخاری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واتّخذ اللہ ابراہیم خلیلاً
(رقم الحدیث: 3364)
ہاجرہ کے شوہر حضرت ابراہیم بن آزر تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پہلے عراق میں پیدا ہوئے اور 175 سال کی عمر پا کر اُن کی وفات ہوئی۔ اُنہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔ مگر شرک اور بُت پرستی کا غلبہ ان لوگوں کے ذہن پر اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ توحید کے پیغام کو قبول نہ کر سکے۔ حضرت ابراہیم نے ایک سے زیادہ جنریشن تک لوگوں کو توحید کا پیغام دیا۔ مگر اس زمانہ میں شرک ایک تہذیب کی صورت اختیار کرکے لوگوں کی زندگی میں اس طرح شامل ہوچکا تھا کہ وہ اس سے الگ ہو کر سوچ نہیں سکتے تھے۔ پیدا ہوتے ہی ہر آدمی کو شرک کا سبق ملنے لگتا تھا۔ یہاں تک کہ ماحول کے اثر سے اُس کا ذہن پوری طرح شرک میں کنڈیشنڈ ہوجاتا تھا۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ متمدّن شہروں سے باہر غیر آباد صحرا میں ایک نسل تیار کی جائے۔ اسی مقصد کے لیے حضرت ابراہیم نے ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ میں آباد کیا۔