انسان کی غذائی ضرورت

غذا انسان کی لازمی ضرورت ہے۔ قدیم زمانہ میں غذا کا مطلب صرف دو ہوا کرتا تھا— ذائقہ لینا اور بھوک مٹانا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں یہ دونوں چیزیں اضافی بن چکی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی تحقیقات کے بعد یہ معلوم ہوا کہ خوراک کا مقصد ہے کہ جسم کو ایسی غذا فراہم کرنا جس کو موجودہ زمانہ میں متوازن غذا(balanced diet) کہاجاتا ہے جس میں بنیادی طور پر چھ اجزا شامل ہیں:

A balanced diet is one which contains carbohydrate, protein, fat, vitamins, mineral salts and fibre in the correct proportions.

ان اجزاء میں سے پروٹین (protein) کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ پروٹین کا ہمارے جسم کی بناوٹ میں بنیادی حصہ ہے:

Protein is the main building block of our body.

پروٹین کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ لحمی غذا ہے۔ لحمی غذا سے ہم کو اعلیٰ پروٹین حاصل ہوتی ہے۔ غیر لحمی غذاؤں سے بھی کچھ پروٹین ملتی ہے لیکن وہ نسبتًا ناقص پروٹین ہوتی ہے:

Meat is the best source for high-quality protein. Plant protein is of a lower biological value.

مزید یہ کہ لحمی پروٹین اور غیر لحمی پروٹین کی تقسیم بھی صرف تقریب فہم کے لیے ہے، وہ حقیقی تقسیم نہیں۔ اس لیے کہ خوردبین کی دریافت کے بعد سائنس کے میدان میں جو مطالعہ کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام غذائی اشیاء کے اندر بے شمار بیکٹیریا موجود رہتے ہیں جو مکمل طورپر زندہ اجسام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن غیر لحمی غذاؤں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ ان میں بڑی مقدار میں پروٹین ہوتا ہے مثلاً دودھ، دہی، پنیر وغیرہ، وہ سب بیکٹیریا کے ناقابلِ مشاہدہ پراسس کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ بیکٹیریا کا عمل اگر اس کے اندر نہ ہو تو کسی بھی غیر لحمی غذا سے پروٹین حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

بیکٹیریا کو علمی زبان میں مائیکرو آرگنزم (micro-organism) کہاجاتا ہے، یعنی اجسام صغیر۔ اس کے مقابلہ میں حیوانات مثلاً بکری اور بھیڑ وغیرہ کی حیثیت میکرو آرگنزم (macro organism) کی ہے، یعنی اجسام کبیر۔ اس حقیقت کو سامنے رکھئے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ ہر آدمی عملاً لحمی غذا کھارہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نام نہاد ویجیٹیرین اس کو اجسام صغیر کی صورت میں لے رہے ہیں اور نان ویجیٹیرین لوگ اس کو اجسام کبیر کی صورت میں لے رہے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہر انسان کا معدہ ایک عظیم مذبح (slaughter house) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس غیر مرئی مذبح میں ہر روز ملین اینڈ ملین اجسام صغیر ختم ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ساری دنیا میں اجسام کبیر کے جومذبح خانے ہیں ان کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ۔

اس سارے معاملے کا تعلق خالق کے تخلیقی نظام سے ہے۔ خالق نے تخلیق کا جو نظام مقرر کیاہے، وہ یہی ہے کہ انسان کے جسم کی غذائی ضرورت زندہ اجسام (living organism) کے ذریعے پوری ہو۔ فطرت کے نقشہ کے مطابق، زندہ اجسام کو اپنے اندر داخل کیے بغیر کوئی مرد یا عورت اپنی زندگی کو باقی نہیں رکھ سکتا۔ خالق کے نقشہ کے مطابق، زندہ چیزیں ہی زندہ وجود کی خوراک بنتی ہیں۔ جن چیزوں میں زندگی نہ ہو، وہ زندہ لوگوں کے لیے خوراک کی ضرورت فراہم نہیں کرسکتیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ویجیٹیرین ازم (vegetarianism)اور نان ویجیٹیرین ازم (non-vegetarianism) کی اصطلاحیں صرف ادبی اصطلاحیں ہیں، وہ سائنسی اصطلاحیں نہیں۔

اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی کے لیے اس کے سواکوئی چوائس (choice)نہیں کہ وہ نان ویجیٹیرین بننے پر راضی ہو۔ جو آدمی خالص ویجیٹیرین بن کر زندہ رہنا چاہتا ہو، اس کو یاتو اپنے آپ کو موت کے حوالے کرنا ہوگا یا پھر اس کو ایک اور عالم تخلیق کرنا ہوگا جہاں کے قوانین موجودہ دنیا کے قوانین سے مختلف ہوں۔ ان دو کے سوا کوئی دوسرا چوائس کسی انسان کے لیے نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom