قربانی کی حقیقت
حج یا عید ِاضحی کے موقع پر جانور کی قربانی دی جاتی ہے۔ اس قربانی کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اسپرٹ، اور دوسرے اس کی ظاہری صورت۔اسپرٹ کے اعتبار سے قربانی ایک قسم کا عہد (pledge) ہے۔ قربانی کی صورت میں عہد کا مطلب ہے عملی عہد (pledge in action)۔ عہد کے اس طریقہ کی اہمیت کو عمومی طورپر تسلیم کیاجاتا ہے۔ اس میں کسی کو بھی کوئی اختلاف نہیں۔
یہاں اس نوعیت کی ایک مثال دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوگا کہ قربانی کا مطلب کیا ہے۔ نومبر 1962 کا واقعہ ہے۔ ہندستان کی مشرقی سرحد پر ایک پڑوسی طاقت کی جارحیت کی وجہ سے زبردست خطرہ پیداہو گیا تھا۔ سارے ملک میں سنسنی خیزی کی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔
اُس وقت قوم کی طرف سے جو مظاہرے ہوئے، اس میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ احمد آباد کے 25 ہزار نوجوانوں نے مشترکہ طورپر یہ عزم کیا کہ وہ ملک کے بچاؤ کے لیے لڑیں گے اورملک کے خلاف باہر کے حملہ کا مقابلہ کریں گے، خواہ اسی راہ میں ان کو اپنی جان دے دینی پڑے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد انھوں نے یہ کیا کہ ان میں سے ہر شخص نے اپنے پاس سے ایک ایک پیسہ دیا اور اس طرح 25 ہزار پیسے جمع ہوگئے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے ان پیسوں کو اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی خدمت میں پیش کیا۔ پیسہ دیتے ہوئے انھوں نے ہندستانی وزیر اعظم سے کہا کہ یہ 25 ہزار پیسے ہم 25 ہزار نوجوانوں کی طرف سے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کرنے کا نشان ہیں:
To give ourselves to you
مذکورہ نوجوانوں نے اپنی قربانی کا علامتی اظہار 25 ہزار پیسوں کی شکل میں کیا۔ 25 ہزار پیسے خود اصل قربانی نہیں تھے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت(token) تھے۔ یہی معاملہ جانور کی قربانی کا ہے۔ قربانی کے عمل میں جانور کی حیثیت صرف علامتی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعے ایک مومن علامتی طورپر اس بات کاعہد کرتا ہے کہ وہ اسی طرح اپنی زندگی کو خدا کی راہ میں پوری طرح لگادے گا۔ اسی لیے قربانی کے وقت یہ کہا جاتا ہے کہ: اللہم منک ولک،یعنی اے خدا یہ تو نے ہی دیا تھا، اب میں اس کو تیرے سپرد کرتا ہوں۔
جہاں تک قربانی کی اسپرٹ کا سوال ہے، اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک عالمی طورپر تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس قسم کی اسپرٹ کے بغیر کبھی کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا۔ البتہ جہاں تک قربانی کی شکل کا تعلق ہے، یعنی جانور کا ذبیحہ، اس پر کچھ لوگ شک و شبہہ کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جانور کو ذبح کرنا تو ایک بے رحمی کی بات ہے، پھر ایسے ایک بے رحمی کے عمل کو ایک مقدس عبادت میں کیوں شامل کیا جاتا ہے۔
اس معاملہ پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی حقیقی اعتراض نہیں۔ یہ صرف ایک بے اصل بات ہے جو توہمانہ کنڈیشننگ (superstitious conditioning) کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے، اس کے پیچھے کوئی علمی بنیاد نہیں۔