انڈیا کے ریفرنس میں
ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن (پیدائش: 1925) انڈیا کے مشہور زرعی سائنٹسٹ ہیں۔ وہ انڈیا میں گرین ریولیوشن (green revolution) کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو انٹرنیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار اسٹیٹس مین کے شمارہ 4 ستمبر 1967 میں سوامی ناتھن کا ایک خصوصی انٹرویو چھپا جو انھوں نے یواین آئی کے نمائندہ کو دیا تھا۔ ا س میں یہ انتباہ دیاگیا تھا کہ انڈیا کے لوگ اپنی غذائی عادتوں کی بنا پر پروٹینی فاقہ (protein hunger) کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس بیان میں کہاگیا تھا کہ:
“اگلے دو دہوں میں ہندستان کو بہت بڑے پیمانہ پر ذہنی بونا پن (intellectual dwarfism) کے خطرہ کا سامنا کرنا ہوگا، اگر پروٹینی فاقہ کا مسئلہ حل نہیں ہوا‘‘۔ یہ الفاظ ڈاکٹر ایم، ایم، سوامی ناتھن نے یو این آئی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہے تھے جو انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی) کے ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔انھوں نے کہا تھا کہ متوازن غذا کا تصور اگر چہ نیا نہیں ہے، مگر دماغ کے ارتقا ء کے سلسلہ میں اس کی اہمیت ایک نئی حیاتیاتی دریافت کی ہے۔ اب یہ بات قطعی ہے کہ چار سال کی عمر میں انسانی دماغ 80 فی صدسے لے کر 90 فیصد تک اپنے پورے وزن کو پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر اس نازک مدت میں بچّہ کو مناسب پروٹین نہ مل رہی ہو تو دماغ اچھی طرح نشوونما نہیں پاسکتا— ڈاکٹر سوامی ناتھن نے کہا کہ مختلف نسلی گروہوں کے ذہنی فرق کا تقابلی مطالعہ مستقبل میں اس نقطۂ نظر سے بھی کرنا چاہیے۔اگر ناقص تغذیہ اور پروٹینی فاقہ کے مسئلہ پر جلد توجہ نہ دی گئی تو اگلے دو دہوں میں ہمیں یہ منظر دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف متمدن قوموں کی ذہنی طاقت (intellectual power) میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن بڑھ رہا ہے۔نوجوان نسل کو پروٹینی فاقہ سے نکالنے میں اگر ہم نے جلدی نہ کی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر روز ہمارے یہاں دس لاکھ ذہنی بونے (intellectual dwarfs) وجود میں آئیں گے۔ اس کا بہت کچھ اثر ہماری نسلوں پر تو حالیہ برسوں ہی میں پڑ چکا ہوگا۔
پوچھا گیا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعہ عوام کے اندر پروٹینی شعور(protein-consciousness) پیدا کرے۔ اور اس سلسلہ میں رائے عامہ کو بیدار کرے۔
غیر لحمی غذاؤں میں دالیں پروٹین حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ اور حیوانی غذاؤں مثلاً دودھ میں زیادہ اعلیٰ قسم کا پروٹین پایا جاتا ہے۔ پروٹین کی ضرورت کا تخمینہ مقدار اور نوعیت دونوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔ اوسط نشوونما کے لیے پروٹین کے مرکبات میں 80 قسم کے امینوایسڈ (amino acid) ہونا ضروری ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غیر لحمی غذاؤں میں بعض قسم کے ایسڈ مثلاً لائسین (Lysine) اور میتھیونین(Methionine) کا موجود ہونا عام ہے، جب کہ جوار میں لائسین کی زیادتی اُن علاقوں میں بیماری کا سبب رہی ہے جہاں کی خاص غذا یہی اناج ہے۔
اگرچہ حیوانی غذا (دودھ) کا بڑے پیمانے پر حصول پسندیدہ چیز ہے، مگر ان کا حصول بہت مہنگا ہے۔ کیوں کہ نباتاتی غذا کو حیوانی غذا کی شکل دینے کے لیے بہت زیادہ قوت ضائع کرنی پڑتی ہے۔ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کے تمام حصوں سے گیہوں اور جوار کی قسمیں منگواکر جمع کی گئیں اور اس اعتبار سے ان کا تجزیہ کیاگیا کہ کس قسم میں کتنے امینو ایسڈ پائے جاتے ہیں۔ تحقیق سے ان میں دلچسپ فرق معلوم ہوا۔ ان میں پروٹین کی مقدار 7 فی صدسے لے کر 16 فی صد تک موجود تھی۔یہ بھی معلوم ہوا کہ نائٹروجن کی کھاد استعمال کرکے نصف کے قریب تک ان کا پروٹین بڑھایا جاسکتا ہے۔
کسانوں کے اندر پروٹینی شعور پیدا کرنے کے لیے ڈاکٹر سوامی ناتھن نے یہ تجویز بتائی تھی کہ گیہوں کی خریداری کے لیے قیمتوں کا تعین اس بنیاد پر کیا جائے کہ کس قسم میں کتنا پروٹین پایا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ غلّہ کے بعض بازاروں میں پروٹین جانچ کی ایک سروس جاری کرے گا اور جب اطمینان بخش حقائق جمع ہوجائیں گے تو یہ معیار (criterion) تعینِ قیمت کی پالیسی میں شامل کیا جاسکے گا۔ غلّے کی مقدار کو بڑھانے اور اس کی قسم (quality) کو بہتر بنانے کے دو طرفہ کام کو نسلی طورپر اس طرح مربوط کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ فصل دینے والے اور زیادہ بہتر قسم کے اناج، باجرے اور دالوں کی کاشت کی جائے۔ذہنی بونے پن (intellectual dwarfism) کا جو خطرہ ہمیں درپیش ہے، اس کا مقابلہ کرنے کا یہ سب سے کم خرچ اور فوری طور پر قابلِ عمل طریقہ ہے‘‘۔ (اسٹیٹس مین، دہلی، 4 ستمبر1967)
ڈاکٹر سوامی ناتھن کے مذکورہ بیان کی اشاعت کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میں اس پر تبصرے کیے گیے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار انڈین اکسپریس (7 ستمبر 1967) نے اپنے اداریے میں جو کچھ لکھا تھا، اس کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
“انڈسٹری کی طرح زراعت میں بھی ہمیشہ یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایک متحرک پالیسی کے نتائج کا شروع ہی میں اندازہ کیا جاسکے۔ اس طرح جب مرکزی حکومت نے اناج کی قیمت کے سلسلے میں تائیدی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو مشکل ہی سے یہ شبہہ کیا جاسکتا تھا کہ غلے کی بہتات کے باوجود پروٹینی فاقہ (protein hunger) کا مسئلہ سامنے آجائے گا— جیسا کہ انڈین ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سوامی ناتھن نے نشاندہی کی ہے۔ غلوں پر زیادہ اعتماد سے ایسی صورت حال پیدا ہوگی جس سے اچھے کھاتے پیتے لوگ بھی ناقص تغذیہ (malnutrition) میں مبتلا ہوجائیں گے۔ جو لوگ پروٹینی فاقہ سے دوچار ہوں گے، جسمانی تکلیفات کے علاوہ ان کے ذہنوں پر بھی اثرات پڑیں گے۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے بیان کے مطابق، یہ ہوگا کہ بچوں کی ذہنی صلاحیت پوری طرح نشو ونما نہیں پائے گی۔ چوں کہ انسانی دماغ اپنے وزن کا 80 فی صد سے لے کر 90 فی صد تک چار سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے پورا کرلیتا ہے، اس لیے اس کمی کے نتیجے میں ایک بڑا نقصان حالیہ برسوں ہی میں ہوچکا ہوگا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے ملک میں ذہنی بونا پن(intellectual dwarfism) وجود میں آجائے گا۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے موجودہ زرعی پالیسی پر نظر ثانی ضروری ہے۔
مگر وہ حد بندیاں (limitations) بھی بہت زیادہ ہیں جن میں حکومت کو عمل کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے یہ کہ زرعی پیداوار کو حیوانی پروٹین میں تبدیل کرنا بے حد مہنگا ہے۔ حکومت نے اگرچہ متوازن خوراک (balanced diet) اور گوشت، انڈے اور مچھلی کے زیادہ استعمال کی ایک مہم چلائی ہے، مگر اس کے باوجود عوام اپنی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے میں بہت سُست ہیں۔
عمومی طورپر بھوک کا مسئلہ جانوروں کو پالنے کی مہم چلانے میں اخراجات کا مسئلہ اور لوگوں کی غذائی عادتوں (food habits) کو بدلنے کی مشکلات وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے حکومت کو زراعت کی بنیاد پر اپنی پالیسی بنانی پڑتی ہے۔ مگر مستقبل قریب کو دیکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سوامی ناتھن کی وارننگ کو نظر انداز نہ کرسکے گی۔ دُور رس نتائج کے اعتبار سے زراعتی پالیسی کی مشکلات کو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتصادیات نہیں بلکہ سائنس حل کرے گی۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اناج خاص طور پر گیہوں کو پروٹین سے مالا مال کیا جاسکتا ہے۔ کھاد جو کہ پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، وہ بھی گیہوں کے اندر پروٹین کے جزو کو بڑھاتی ہے۔
تاہم یہ امر مشتبہ ہے کہ صرف غلہ کی کاشت کے طریقہ میں تبدیلی اس مسئلہ کا جواب فراہم کرے گی۔ جب تک پروٹین کی اونچی اقسام رکھنے والے گیہوں دریافت نہ ہوجائیں۔ جب تک ایسا نہ ہو گورنمنٹ کو چاہیے کہ دالوں اور حیوانی پیداوار کی اسی طرح حوصلہ افزائی کرے جس طرح وہ اناج کی حوصلہ افزائی کررہی ہے‘‘۔(انڈین اکسپریس، 7 ستمبر 1967)
جیسا کہ معلوم ہے، ہندستان کو اگلے بیس برسوں میں ایک نیا انتہائی بھیانک خطرہ درپیش ہے، یہ خطرہ زرعی تحقیق کے ادارہ کے ڈائریکٹر کے الفاظ میں “ذہنی بونا پن‘ ‘ کا خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آ ئندہ نسلیں بظاہر جسمانی اعتبار سے دوسروں کے برابر ہوں گی، مگر ذہنی استعداد کے اعتبار سے ہم دنیا کی دوسری متمدن قوموں سے پست ہوچکے ہوں گے۔
یہ خطرہ جو ہمیں در پیش ہے، اس کی وجہ ڈاکٹر سوامی ناتھن کے الفاظ میں یہ ہے کہ ہماری غذا میں پروٹین کا جزء بہت کم ہوتا ہے، یہاں کی آبادی ایک قسم کے پروٹینی فاقہ میں مبتلا ہوتی جارہی ہے۔
پروٹین ایک غذائی جُز ہے جو انسانی جسم کی صحیح نشونما کے لیے ضروری ہے۔ یہ پروٹین اپنی اعلیٰ ترین شکل میں گوشت سے حاصل ہوتا ہے۔ گوشت کا پروٹین نہ صرف قسم میں اعلیٰ ہوتا ہے، بلکہ وہ انتہائی وافر اور سستی مقدار میں دنیا کے اندر موجود ہے۔