اسلام کے پانچ ارکان

عبادت کا تعلق انسان کی پوری زندگی سے ہے۔ ان میں سے پانچ چیزیں بنیادی عبادت کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُنی الإسلام علی خمسٍ: شہادۃ أن لا إلٰہ إلااللہ وأنّ محمداً عبد ہ ورسولہ، وإقام الصلوۃ، وإیتاء الزکوۃ، والحج، وصوم رمضان (متفق علیہ) یعنی اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے۔اِس بات کی گواہی دینا کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور محمد، اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا، اور حج پورا کرنا،اور رمضان کے روزے رکھنا۔

یہ گویا کہ پانچ ستون (pillars) ہیں جن کے اوپر اسلام کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ عمارت ایک دکھائی دینے والی چیز ہے۔اِس حدیث میں عمارتی ڈھانچے کو بطور تمثیل استعمال کرتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح ستونوں کے بغیر کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوتی، اسی طرح ان پانچ ارکان کے بغیر اسلام کا قیام بھی نہیں ہوتا۔ اسلام کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ ستونوں کو زندگی میں قائم کیا جائے۔

اسلام کے ان پانچ ارکان کی ایک اسپرٹ ہے، اور ایک اس کا فارم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اصل اہمیت ہمیشہ اسپرٹ کی ہوتی ہے، لیکن فارم بھی یقینی طورپر ضروری ہے۔ جس طرح جسم کے بغیر روح نہیں، اسی طرح فارم کے بغیر اسلام بھی نہیں۔ اِس معاملے میں بھی اسپرٹ کا اہتمام بہت ضروری ہے، لیکن یہ اہتمام فارم کے ساتھ ہوسکتاہے، فارم کے بغیر نہیں۔

کلمۂ توحید

ان ارکان میں سے پہلا رکن کلمۂ توحید ہے۔ اس کلمہ کا ایک فارم ہے اور اسی کے ساتھ اس کی ایک اسپرٹ ہے۔ اس کا فارم یہ ہے کہ آپ عربی کے مذکورہ الفاظ (کلمۂ شہادت) کو اپنی زبان سے ادا کریں۔ کلمہ کی اسپرٹ معرفت ہے، یعنی خدا کو دریافت کے درجے میں پالینا۔ کلمۂ توحید کی وہی ادائیگی معتبر ہے جو معرفت کی بنیاد پر ہو۔ معرفت کے بغیر کلمہ پڑھنا صرف کچھ عربی الفاظ کا تلفّظ ہے، وہ حقیقی معنی میں کلمۂ توحید نہیں۔

یونان کے قدیم فلسفی ارشمیدس (Archimedes) کو یہ جستجو تھی کہ کشتی پانی کے اوپر کیسے تیرتی ہے۔ وہ اس کی تلاش میں تھا۔ ایک دن وہ پانی کے حوض میں لیٹا ہوا نہا رہا تھا۔ اچانک اس کو فطرت کے اس قانون کی دریافت ہوئی جس کو بائنسی (law of buoyancy) کہاجاتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر اہتزاز(thrill) کی کیفیت پیدا ہوئی۔ وہ اچانک حوض سے نکلا۔ اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ: میں نے پالیا، میں نے پالیا(Eureka, Eureka)۔

اِس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کلمہ کی ادائیگی کیا ہے۔ کلمۂ توحید کی ادائیگی دراصل داخلی معرفت کا ایک خارجی اظہار ہے۔ یہ حکم بلا شبہہ اسلام کے ارکان میں اولین اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ اہمیت اس کی داخلی معرفت کی بنا پر ہے، نہ کہ صرف لسانی تلفظ کی بنا پر۔

نماز

اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ دوسرے ارکان کی طرح نماز کا بھی ایک فارم ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فارم قیام اور رکوع اور سجود پر مبنی ہے۔ اسی کے ساتھ نماز کی ایک اسپرٹ ہے، وہ اسپرٹ سرنڈر (surrender) ہے، یعنی اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کردینا۔ خدا کو کامل معنوں میں اپنا مرکز ِ توجہ بنا لینا۔ پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کرلینا۔اِسی اسپرٹ کادوسرا نام قرآن میں ذکر ِ کثیر (الأحزاب: 41) ہے، یعنی خدا کو بہت زیادہ یاد کرتے ہوئے زندگی گزارنا۔ نماز کا مقصد بھی قرآن میں ذکر بتایاگیا ہے (طٰہٰ:14) ذکر کامطلب رسمی طورپر صرف کسی قسم کی تسبیح خوانی نہیں، بلکہ ہر موقع پر سچے احساس کے ساتھ خدا کو یاد کرتے رہنا ہے۔

آدمی جب دنیا میں زندگی گزارتا ہے تو وہ مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات سے گزرتا ہے۔ اس وقت اس کے اندر وہ چیز پیدا ہونا چاہیے جس کو قرآن میں توسّم (الحجر:75) کہاگیا ہے، یعنی ہر دنیوی تجربے کو خدا ئی تجربے میں کنورٹ کرتے رہنا۔ ہر چیز سے ربّانی غذا حاصل کرتے رہنا۔ حقیقی نماز وہی ہے جو آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کردے کہ وہ ہر چیز سے اپنے لیے توسّم کی غذا حاصل کرتا رہے۔

روزہ

اسلام کے ارکان میں سے تیسرا رُکن روزہ ہے۔ روزہ کا فارم یہ ہے کہ آدمی صبح سے شام تک کھانا اور پینا چھوڑ دے۔ وہ اپنے دن کو بھوک اور پیاس کی حالت میں گزارے۔ روزہ کی اسپرٹ صبر ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ: ہو شہر الصبر(رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے)۔

صبر (patience) کیا ہے۔ صبر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا میں سلف ڈسپلن (self-discipline) کی زندگی گزارنے لگے۔ وہ اپنی خواہشوں پرروک لگائے۔ وہ اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہو۔ وہ اپنی انا کو گھمنڈ نہ بننے دے۔ وہ لوگوں کے درمیان نوپرابلم (no problem) انسان بن کر رہے۔ سماجی زندگی میں جب اس کو کوئی شاک (shock) لگے تو وہ اس شاک کو اپنے اوپر سہے، وہ اس کو دسرے تک پہنچنے نہ دے۔

نماز کے فارم کے ساتھ جب یہ اسپرٹ شامل ہوجائے تب کسی آدمی کی نماز حقیقی نماز بنے گی، ورنہ حدیثِ رسول کی زبان میں، اس سے کہہ دیا جائے گا کہ: ارجع فصلّ فإنّک لم تصلِّ (صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ) یعنی جاؤ پھر سے نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔

زکوٰۃ

اسلام کا چوتھا رکن زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا فارم یہ ہے کہ آدمی اپنی کمائی کے ایک حصے سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرے، اور اپنی کمائی کا کچھ حصہ خدا کے حکم کے مطابق، وہ دوسرے انسانوں پر خرچ کرے۔ یہ زکوٰۃ کا فارم ہے۔ زکوٰۃ کی اسپرٹ انسان کی خیر خواہی ہے، یعنی تمام انسانوں کو اپنا سمجھنا۔ حقیقی معنوں میں انسان دوست رویہ (human-friendly behaviour) اختیار کرنا۔ صرف اپنے لیے جینے کے بجائے، ساری انسانیت کے لیے جینا۔ آدمی اگر زکوٰۃ کی رقم دے دے، لیکن دل سے وہ انسانوں کا خیر خواہ نہ بنے تو اس کی زکوٰۃ ادھوری زکوٰۃ مانی جائے گی۔ ایسے آدمی کی زکوٰۃ پورے معنوں میں زکوٰۃ نہیں ہوگی۔

حج

اسلامی ارکان میں سے پانچواں رکن حج ہے۔ حج کے لفظی معنی ہیں قصد کرکے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ شرعی اصطلاح میں، حج سے مراد وہ عبادتی سفر ہے جس میں آدمی اپنے وطن سے نکل کر مکہ (عرب) جاتا ہے اور وہاں ماہِ ذو الحجّہ کی مقرر تاریخوں میں حج کے مراسم ادا کرتاہے اور خدا کے نام پر جانور کو قربان کرتا ہے۔ یہ حج کا فارم ہے۔ حج کی اسپرٹ قربانی (sacrifice) ہے۔ حج کا فارم اور حج کی اسپرٹ دونوں جب کسی کی زندگی میں اکھٹا ہوں تو وہ حج کی عبادت کرنے والا قرار پاتاہے۔

حج کے دوران منٰی کے مقام پر تمام حاجی، جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں۔ انھیں تاریخوں میں دنیا بھر میں مختلف مقامات پر مسلمان عید اضحی مناتے ہیں۔ عید اضحی گویا کہ حجکی عبادت میں ایک قسم کی جُزئی شرکت ہے۔ عید اضحی کے ذریعے تمام دنیا کے مسلمان مکہ میں کئے جانے والے حج کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول، یہ قربانیاں کیا ہیں (ما ہذہ الأضاحی یا رسول اللہ)۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے (سنۃ أبیکم إبراہیم) اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کے زمانے میں جو قربانی دی جاتی ہے، وہ اُس طریقے پر عمل کرنے کے لیے ہوتی ہے جس کا نمونہ حضرت ابراہیم نے قائم کیا تھا۔

اِس لیے حج اور قربانی کی حقیقت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس پہلو سے پیغمبر ِ خدا، حضرت ابراہیم کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے۔ اِس مطالعے سے نہ صرف یہ ہوگا کہ ہم کوحج اور قربانی کا تاریخی پس منظر معلوم ہوگا، بلکہ اس کی اصل حقیقت کو سمجھنا بھی ہمارے لیے ممکن ہوجائے گا۔ حج یا عیداضحی میں قربانی دراصل حضرت ابراہیم کی سنت کو دوبارہ زندہ کرنے کا عہد ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم کی زندگی کی روشنی میں قربانی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom