سوال وجواب

سوال

ماہ نامہ الرسالہ، اکتوبر 2009 میں “فلسطین کا مسئلہ‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو غور کے ساتھ پڑھا۔ اس میں فلسطین کی تاریخ کو بہت ہی اچھے اور معلوماتی انداز میں سلسلے وار بیان کیاگیا ہے جو قارئین کو قیمتی معلومات کے ساتھ ساتھ حقیقت سے آگاہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں۔یہاں حسب ذیل سوالوں کا جواب مطلوب ہے:

1-مسجد اقصی کے کیمپس میں صخرہ ایک چوکو رچٹان ہے۔ اِسی چٹان کو یہودی اپنے لئے مقدس سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی وہ صخرہ ہے جس پر حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسحاق کی قربانی پیش کی تھی۔ اسلامی تاریخ میں اس قربانی کا مقام منیٰ بتایا گیا ہے۔ یہودیوں کے اس عقیدہ اور تاریخ کی بنیاد کیا ہے۔ کیا تورات میں اس کا ذکر موجود ہے۔

2-مسجد اقصیٰ کو آپ نے یروشلم کی یہودی عبادت گاہ (ہیکل) بتایا ہے۔ قرآن میں مسجد اقصیٰ کا ذکر ہے جس کے معنی آپ نے دور کی مسجد (farthest place of worship) کے بتائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا مقام یا مسجد ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر انبیائِ سابقین کو امامت کے ساتھ نماز پڑھائی تھی۔

3-مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے پر، اور مسجدوں کے مقابلے میں 25 ہزار، مسجد نبوی میں 50 ہزار اور مسجد حرام میں ایک لاکھ درجہ ثواب بتایا جاتا ہے۔ اس مسجد اقصیٰ سے کیا مراد ہے۔ (ابرار حسین قریشی، مدھیہ پردیش)

جواب

1-یہ ایک عقیدے کی بات ہے، نہ کہ تاریخ کی۔ مسلمان، حضرت اسماعیل کو ذبیح مانتے ہیں اور منیٰ (مکہ) کو قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ اِس کے برعکس یہود، حضرت اسحاق کو ذبیح مانتے ہیں اور صخرہ (یروشلم) کو اس قربانی کا مقام قرار دیتے ہیں۔ حضرت اسحاق کے ذبیح ہونے کا ذکر یہود کے مقدس صحیفہ تورات کی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب 22 میں موجود ہے۔

2-پیغمبر آخر الزماں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امامت میں انبیائِ سابقین کی نماز کا ذکر حدیث میں آیا ہے (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب ذکر المسیح، رقم الحدیث: 278) یہ واقعہ غالباً 621 عیسوی میں پیش آیا۔ تاریخی شواہد کے مطابق، اُس وقت وہاں مسجد اقصیٰ کی موجودہ عمارت موجود نہ تھی۔ اُس وقت یہ مقام کھنڈر کی صورت میں تھا۔ اِس لیے یہ ماننا ہوگا کہ یہ نماز مسجد اقصٰی کی سائٹ (site) پر ہوئی، نہ کہ مسقَّف عمارت کے اندر۔

3-قرآن میں مسجد اقصیٰ سے مراد مسجد کی سائٹ (site) ہے۔ حدیث میں جس اقصیٰ کا ذکر ہے، وہ حال کے اعتبار سے سائٹ کے معنی میں ہے اور مستقبل کے اعتبار سے مسقف مسجد کے معنی میں۔

جہاں تک نماز کی فضیلت کی بات ہے، اس کا تعلق مجرد طورپر صرف مقامات سے نہیں ہے، بلکہ ان مقامات کی تاریخی حیثیت سے ہے۔ مسجد حرام کی اہمیت یہ ہے کہ اس سے حضرت ابراہیم کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کوئی شخص مکہ جاکر مسجد حرام میں نماز ادا کرتا ہے تو اس کو اِس ابراہیمی تاریخ کی یاد آتی ہے۔ اِس بنا پر اس کی نماز میں غیر معمولی کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں۔ اِنھیں بڑھی ہوئی کیفیات کی بنا پر مسجد حرام میں نماز کی اہمیت ہے، نہ کہ صرف درودیوار کے اعتبار سے۔

اِسی طرح مسجد نبوی سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وابستہ ہے۔ وہاں جب آدمی نماز، پڑھتا ہے تو اس تاریخ کی یاد آدمی کے اندر غیر معمولی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اِنھیں کیفیات کی بناپر مسجد نبوی کی نماز دوسری مساجد کی نماز سے بہت زیادہ مختلف ہوجاتی ہے۔

اِسی طرح مسجد اقصی سے اسرائیلی پیغمبروں کی تاریخ وابستہ ہے۔ جب کو ئی شخص مسجد اقصی میں نماز ادا کرتا ہے تو اِس تاریخ کی یاد اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ اِس طرح یہاں ادا کی ہوئی نماز دوسری مسجدوں کی نماز سے مختلف ہوجاتی ہے۔

موجودہ زمانے میں عرب علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جب تک مسجد اقصی پر یہود کا قبضہ باقی ہے، اُس وقت تک باہر کے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ سفر کرکے وہاں جائیں اور مسجد اقصی میں نماز ادا کریں۔ یہ فتویٰ بالکل بے بنیاد ہے، اس فتوے کی کوئی شرعی اہمیت نہیں۔ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یروشلم کا سفر کیا اور وہاں نماز ادا کی، اُس وقت یہ جگہ رومیوں کے قبضے میں تھی۔ اگر رومیوں کے قبضہ کے باوجود مسجد اقصی کے مقام پر نماز پڑھنا جائز تھا تو یہود کے “قبضہ‘‘ کے وقت وہاں نماز ادا کرنا کیوں ناجائز ہوجائے گا۔ اِس قسم کے فتوے بلا شبہہ سیاسی فتوے ہیں، نہ کہ شرعی فتوے۔

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں یہ افواہ پھیلی ہوئی ہے کہ اسرائیلی فوجی مسلمانوں کو مسجد اقصی کے اندر جانے نہیں دیتے، وہ مسلمانوں کو اِس عظیم سعادت سے محروم کئے ہوئے ہیں کہ وہ مسجد اقصیٰ میں جاکر نماز ادا کریں۔ یہ بلاشبہہ ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔ مسجد اقصی میں مسلمانوں کے لیے نماز اداکرنے پر اسرائیل کی طرف سے کوئی پابندی نہیں۔ اگر پابندی ہے تو وہ سیاسی مظاہرہ کرنے پر ہے، نہ کہ وہاں نماز ادا کرنے پر۔ جو لوگ اِس قسم کی بے بنیاد باتیں کہیں، اُنھیں سوچنا چاہیے کہ کہیں وہ خدا کے یہاں مقعد ِ صدق (القمر: 55) پر جگہ پانے سے محروم نہ ہوجائیں، اور بلا شبہہ اِس سے بڑی کوئی محرومی نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آخرت کی دنیا میں صداقت کے مقام پر کھڑے ہونے کی سعادت صرف انھیں لوگوں کو ملے گی جنھوں نے اِس دنیا کی زندگی میں صداقت پر کھڑے ہونے کا ثبوت دیا ہو۔

سوال

الرسالہ نے میری زندگی بالکل بدل دی ہے۔ میں نے الرسالہ کے مختلف مضامین کا کئی بار مطالعہ کیا۔ الرسالہ کے ذریعے مجھے زندگی کا ایک راستہ ملا، اور یہ راستہ ان شاء اللہ جنت الفردوس تک جاکرختم ہوگا۔ آپ کے مضامین میں ایک لفظ نے مجھے برابر سوچنے پر مجبور کیا ہے، وہ لفظ ہے — اعراض۔ آپ اس لفظ کا استعمال الرسالہ میں اکثر کرتے ہیں۔ کیا اعراض پر آپ کی کوئی مکمل کتاب بھی ہے۔ اگر ہاں، تو نام ضرور بتائیں (فاروق عبد اللہ، چمپارن، بہار)

جواب

اعراض (avoidance) کی اہمیت کو سمجھنے میں اکثر لوگوں کو دقت پیش آتی ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے غلط تصور کی بنا پر اعراض کو پسپائی کا ایک فعل سمجھتے ہیں، حالاں کہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے، اعراض ایک عبادت ہے۔ اعراض کرتے ہوئے اگر آدمی کو یہ احساس ہو کہ وہ عبادت کا ایک فعل کررہا ہے تو وہ اعراض کی پالیسی کو اطمینانِ قلب کے ساتھ قبول کرے گا۔ وہ کبھی اُس کے بارے میں کنفیوژن (confusion) کا شکار نہ ہوگا۔

اعراض کیا ہے۔ اعراض خدا کے فیصلے پر راضی ہونے کا دوسرا نام ہے۔ خدا نے دنیا کا نظام اِس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو کامل آزادی حاصل ہے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں انسان ٹسٹ (امتحان) کے لیے رکھا گیا ہے، اور آزادی کے بغیر کسی کا ٹسٹ نہیں لیا جاسکتا۔

اِسی آزادی کی بنا پر وہ مسائل پیدا ہوئے ہیں جن میں اعراض کا حکم دیاگیا ہے— کوئی اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے، کوئی شخص اپنی بے جاروش سے ایسے اسباب پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ بھڑک اٹھیں، کوئی شخص نفرت اور تشدد کی بولی بول کر دوسروں کو بھی نفرت اور تشدد میں مبتلا کردیتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جہاں اعراض کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔اعراض در اصل یہ ہے کہ نا خوش گوار حالات میں اپنے آپ کو ردّ عمل کی نفسیات سے بچایا جائے، نا خوش گواریوں کے باوجود اپنے آپ کو اعتدال کی حالت پر قائم رکھا جائے۔

اعراض کی یہ روش اِس لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو منفی راہوں میں بھٹک جانے سے بچایا جائے، اور اپنے آپ کو ہر حال میں مثبت عمل پر قائم رکھا جائے۔

اعراض کا طریقہ اختیار کرنے میں مشکل پیش آنے کی وجہ یہ ہے کہ کسی آدمی کے سامنے جب اِس طرح کی صورتِ حال آتی ہے تو وہ اس کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے جوڑ کر دیکھ نہیں پاتا۔ وہ پیدا شدہ مسئلے کو صرف ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھتا ہے، اِس بنا پر وہ اُس انسان کے خلاف منفی ذہن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اِس کے برعکس، اگر آدمی یہ سوچے کہ یہ مسئلہ خدا کی دی ہوئی آزادی کی بنا پر پیش آیا ہے تو فوراً اس کا ذہن معتدل ہوجائے گا۔ جس مسئلے کو وہ پہلے ایک انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ رہا تھا، اس کو معلوم ہوگا کہ وہ خود خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق پیش آنے والا ایک مسئلہ ہے، وہ سادہ طورپر صرف کسی انسان کا پیدا کردہ مسئلہ نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom