صوفی ازم

بی بی سی لندن کی طرف سے ایک خط مورخہ 31 دسمبر 2003 مجھے ملا۔ اس خط میں مجھ سے فرمائش کی گئی تھی کہ اُن کے ویب سائٹ کے لیے میں ایک ہزار الفاظ کا ایک آرٹیکل تیار کرکے اُنھیں دوں۔ اس آرٹیکل کا تعلق، صوفی ازم سے تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا صوفی ازم مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:

If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the West.

یہ آرٹیکل اُنھیں انگریزی زبان میں ایک ہزار الفاظ میں مطلوب تھا۔ اس آٹیکل کو وہ مختلف زبانوں میں اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنا چاہتے تھے۔ آرٹیکل کا عنوان انھوں نے حسب ذیل الفاظ میں تجویز کیا تھا:

Relevance of Sufism in the post 9/11 world.

یہ دعوت نامہ ملنے کے بعد میں نے از سرِ نو صوفی ازم کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں میں نے صوفیوں اور غیر صوفیوں کی بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا، اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی۔ اس مطالعے کے بعد بہت سی حقیقتیں میرے سامنے آئیں۔

صوفی یا تصوف کی اصطلاحیں قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس کے بجائے قرآن میں الربّانیۃ (آل عمران: 79) کا لفظ آیا ہے۔ قرآن میں الربّانیۃ تقریباً اُسی مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس کے لیے بعد کے زمانے میں تصوف کے الفاظ استعمال ہوئے۔

الربّانیۃ یا الربّانیون کا لفظی مطلب ہے، رب والا۔ یعنی وہ شخص جس کی سوچ اور جس کا عمل، سب کچھ رب کی طرف متوجہ ہوجائے۔ جس کی زندگی مکمل طورپر رب کے رنگ میں ڈھل جائے۔ وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر وہ نفسیاتی اعتبار سے دنیا سے قطع تعلق کرکے آخرت سے جُڑ جائے۔

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدا میں جو آیتیں اُتریں اُن میں آپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیا گیا، یعنی اے چادر اوڑھنے والے۔ چادر اوڑھنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ آدمی خارجی دنیا سے قطع تعلق کرکے داخلی دنیا کی طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ مادی دنیا سے کٹ کر روحانی دنیا سے جڑ گیا۔ وہ انسانوں کی طرف سے اپنا رُخ موڑ کر خدا کی طرف دیکھنے لگا۔ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے اندر یہی نفسیاتی حالت پیدا ہوئی۔ چناں چہ آپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیاگیا۔

صوفی کلچر اس مخصوص نام (تصوف) سے عباسی خلافت کے زمانے میں شروع ہوا۔ اُس وقت صوفی مزاج کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کی پیروی میں ’’چادر‘‘ اوڑھنا شروع کیا۔ یہ چادر عام طورپر صوف (اون) کی بنی ہوئی ہوتی تھی۔ اس لیے ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا، یعنی اون کی چادر اوڑھنے والے۔ پھرصوفی کے لفظ نے مزید ترقی کی اور اس فعل کو تصوف کہاجانے لگا۔ بعد کے زمانے میں اگر چہ تصوف کے حلقوں میں کچھ بدعتیں رائج ہوگئیں، مگر ابتدائی زمانے میں تصوف کا مطلب صرف یہی تھا۔

صوفی ازم اور روحانیت اور ربّانیت سب تقریباً ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ یہ سب بنیادی طورپر مراقبہ (meditation) پر مبنی ہیں۔ یعنی داخلی عبادت کرنا، ذکر و فکر میں مشغول ہو کر حقیقت اعلیٰ کی طرف دھیان لگانا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ عمل دنیا میں رہتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے، نہ کہ دنیا سے باہر جنگلوں اور پہاڑوں میں جاکر۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تصوف یا ربّانی زندگی کا بہترین اظہار مندرجہ ذیل حدیث میں پایا جاتا ہے:

وعلی العاقل مالم یکن مغلوباً علی عقلہ أن تکون لہ ساعات۔ ساعۃ یناجی فیہا ربّہ، وساعۃ یحاسب فیہا نفسہ، وساعۃ یتفکر فیہا فی صنع اللہ تعالیٰ، وساعۃ یخلوفیہا لحاجتہ من المطعم والمشرب (صحیح ابن حبان عن أبی ذر، جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی البغدادی، صفحہ 98)

یعنی ہر صاحب عقل پر لازم ہے کہ اُس کے لیے کچھ گھڑیاں ہوں۔(1) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے سرگوشی کرے۔ (2) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے۔(3) وہ گھڑی جب کہ وہ خدا کی کاری گری میں غور کرے۔ (4) اور وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے کھانے پینے کی ضرورتوں میں مشغول ہو۔

اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اپنے چوبیس گھنٹے کے وقت کو چھ چھ گھنٹے کے حساب سے چار حصوں میں تقسیم کرے اور ہر حصے کو مذکورہ چار کاموں میں سے ایک کام کے لیے وقف کردے۔ اس قسم کی ساعاتی تقسیم نہ فطری طورپر ممکن ہے اور نہ مذکورہ حدیث کا یہ منشا ہے۔

حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رات اور دن کے اوقات اس طرح گذارنا چاہئیں کہ اُس پر مذکورہ قسم کے لمحات برابر آتے رہیں۔ وہ بار بار اس قسم کے تجربات سے گذرتا رہے۔ یہ حدیث تجربات کے تنوع کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ اوقات کی حسابی تقسیم کو بتانے کے لیے۔

ایک انسان کو جب حقیقتِ اعلیٰ (خدا) کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر ایک نفسیاتی انقلاب آجاتا ہے۔ اس نفسیاتی انقلاب کے تحت اُس کی روزوشب کی زندگی اُنھیں تجربات ربانی کے درمیان گذرنے لگتی ہے جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں ملتا ہے۔ یہ حدیث دراصل اُس ربانی انسان کی زندگی کی تصویر ہے جس کو خدا کی دریافت ہوگئی ہو اور اس دریافت کے نتیجے میں اُس کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل گیا ہو۔

ایسے انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی خدا کی یاد میں اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ اُس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا سے باتیں کررہا ہے۔ اسی طرح یہ دریافت اُس کے اندر احتساب خویش کا جذبہ جگادیتی ہے اور وہ اپنا بے لاگ جائزہ لینے لگتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنا تزکیہ کرسکے۔ اسی طرح خالق کی دریافت اُس کے اندر خالق کی تخلیقات میں غور وفکر کا مزاج پیدا کردیتی ہے۔ وہ تخلیقات میں خالق کا جلوہ دیکھنے لگتا ہے۔ یہ اُس کی روحانی یا ربّانی مصروفیات ہیں۔ اسی کے ساتھ اُس کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک جزئی حصے میں اپنی معاشی حاجتوں کے لیے کچھ وقت نکالے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom