اظہارِ دین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن اتر رہا تھا، اس وقت یہ اعلان کی گیا کہ— وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے(ہوالذی أرسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدّین کلّہ)
یہ آیت قرآن کی تین سورتوں (التوبہ، الفتح، الصف) میں آئی ہے۔ اس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے۔ اس کا ابتدائی مظاہرہ عرب میں ہوا جب کہ پورے عرب میں شرک مغلوب ہوگیا اور توحید کو تمام ملک میں فکری غلبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اسی کے ساتھ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر جوانقلاب لائے اس کے ذریعہ سے تاریخ میں ایک نیا عمل جاری ہوا جو تمام علمی اور نظریاتی اسباب کو اسلام کے حق میں کر دینے والا تھا۔ یہ عمل تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں وہ پوری طرح مکمل ہوگیا۔ اب اسلام کو امکانی طورپر تمام ادیان کے اوپر فکری غلبہ حاصل ہوچکا ہے۔ تاہم یہ فکری غلبہ امکان کی صورت میں ہے۔ اب اہلِ اسلام کا یہ کام ہے کہ وہ اٹھیں اور اس امکان کو استعمال کرکے اسلام کو عملی طورپر تمام ادیان کے اوپر غالب اور سر بلند کردیں۔
اظہار دین کی آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ تاریخ میں ایسا انقلاب لایا جائے گا جس کے بعد دلائل کا وزن تمام تر مذہب توحید کے حق میں جمع ہوجائے۔ شرک کی قسم کا کوئی بھی نظریہ دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہونے کے قابل نہ رہے۔ یہ تمام نتیجہ اس انقلاب کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے جس کو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ امکان اپنی آخری صورت میں پیدا ہوچکا ہے۔ آج تمام علمی دلائل اسلام کی صداقت کی تصدیق کررہے ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان جدید امکانات کو سمجھا جائے اور ان کو پُر امن طور پر اسلامی دعوت کے حق میں استعمال کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی دعوت کا کام گویا کہ ایک نظری امکان کو عملی واقعہ بنانے کا کام ہے۔