قیامت قریب آگئی
وسیع کائنات میں زمین ایک استثنائی کُرہ ہے۔ وہ استثنائی طورپر سرسبز و شاداب ہے۔ اِس بنا پر وہ اِس قابل ہے کہ انسان اُس پر آباد ہو اور یہاں ترقی یافتہ تہذیب بنائے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ ابدی صورتِ حال نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب کہ زمین کی شادابی باقی نہ رہے گی۔ وہ ایک بے آب و گیاہ کرہ بن کر رہ جائے گی۔ یہ واقعہ قیامت سے پہلے ہوگا۔
قرآن کی سورہ نمبر 18 کی ایک آیت یہ ہے: إنا جعلنا ما علی الأرض زینۃً لہا لنبلوہم أیُّہم أحسن عملاً۔ وإنّا لجاعلون ما علیہا صعیداً جُرُزاً (الکہف: 7-8) یعنی رُوئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اُس کو زمین کے لیے زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو جانچیں کہ اُن میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔ اور ہم بالآخر اُس پر جو کچھ ہے سب کو بنجر میدان بنادیں گے۔
ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں جب قرآن میں یہ آیت اتری، اُس وقت یہ بات ایک بعید پیشین گوئی تھی، مگر اب زمین کے سائنسی مشاہدات بتارہے ہیں کہ زمین کا یہ مقرر انجام شروع ہوچکا ہے۔ حال میں سیٹلائٹ کے ذریعے سطحِ زمین کے جو مشاہدات کیے گیے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے کُرۂ ارض پر پانی کے نظام میں سخت اختلال پیدا ہوگیا ہے۔ اور زمین تیزی سے عین اُسی انجام کی طرف جارہی ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ’’صعیداً جُرُزاً‘‘ کے الفاظ میں کی گئی تھی۔
حال میں ساری دنیا کے سائنس دانوں نے اِس موضوع پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کیا ہے۔ اُن کے مشاہدات اور ریسرچ کے نتائج برابر میڈیا میں آرہے ہیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ (18 مئی 2007) میں ایک رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— 2050 تک زمین بے آب و گیاہ اور ویران ہو جائے گی:
By 2050, Earth will be arid and empty.
اِس خبر میں بتایا گیا ہے کہ مشہور سائنس داں جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں کہا ہے کہ 2050 تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں گے، یہاں تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں گے:
We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20 % of us survive what is coming. (p. 22)
یہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سادہ طورپر ماحولیاتی تبدیلی (climate change) کی بات نہیں ہے۔ وہ خالق کی طرف سے ایک واررننگ ہے۔ وہ ایک ہونے والے واقعہ کی پیشگی اطلاع ہے۔ وہ اس لیے ہے تاکہ آدمی ہوش میں آجائے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کرے۔
اصل یہ ہے کہ خدانے موجودہ دنیا کو ایک مقامِ تیاری (preparatory ground) کے طورپر بنایا۔اُس نے اِس زمین پر ہر قسم کی ضروری چیزیں مہیا کردیں۔ یہ چیزیں سامانِ عیش کے طورپر نہ تھیں، بلکہ وہ صرف سہولیات (facilities) کے طورپر تھیں۔ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے اندر جنّتی شخصیت کی تعمیر کرے، تاکہ اُس کو جنت کی ابدی دنیا میں بسایا جاسکے۔ مگر انسان نے یہ کیا کہ اُس نے سامانِ تیاری کو سامانِ عیش سمجھ لیا۔ اپنے آپ کو جنت کے لیے تیار کرنے کے بجائے، وہ اِسی دنیا میں اپنی جنت بنانے لگا۔
خدا مختلف قسم کی تنبیہات (warnings)بھیجتا رہا، لیکن انسان ہوش میں نہ آیا۔ اِس طرح اُس نے خدا کی نظر میں یہ جواز کھو دیا کہ وہ مزید مدت تک اِس دنیا میں قیام کرے۔ بظاہر اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ یہ دنیا ختم کردی جائے اور انسان کو اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے میدانِ حشر میں کھڑا کردیا جائے۔