دعوہ ورک، کمیونٹی ورک
دو کام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک ہے، کمیونٹی ورک، اور دوسرا ہے، دعوہ ورک۔ یہ صحیح ہے کہ دونوں ہی کام اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر دونوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کمیونٹی ورک کی اہمیت دنیا کی تعمیر کے اعتبار سے ہے، اور دعوہ ورک کی اہمیت آخرت کی تعمیر کے اعتبار سے۔
موجودزمانہ میں دعوہ ورک حقیقی معنوں میں تو کہیں موجود نہیں۔ البتہ کمیونٹی ورک ہر ملک کے مسلمانوں میں بہت بڑے پیمانہ پر انجام دیا جارہا ہے۔ امریکی اصطلاح میں، ایسے کسی شخص کو کمیونٹی ایکٹیوسٹ (community activist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ جن میدانوں میں کام کرتے ہیں وہ یہ ہیں— تعلیم، اقتصادیات، ملّی مسائل، فرقہ وارانہ نزاعات، ریلیف ورک، سوشل ویلفیر، رفاہی کام، دوسری قوموں کی طرف سے مشکلات کا حل تلاش کرنا، وغیرہ۔
یہ کمیونٹی ورک ہے۔ اس قسم کا کام ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔ ہندو، عیسائی، سکھ اور دوسری قوموں میں اس قسم کا کام بہت بڑے پیمانہ پر اور بہت منظّم اندا ز میں کیا جارہا ہے۔ جب بھی کوئی قوم قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہو تو اُس کے افراد میں فطری طور پر قومی حمیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو دنیوی معنوں میں مستحکم اور ترقی یافتہ بنائے، وہ اپنی قومی کلچرل شناخت کو برقرار رکھے۔
اس کے نتیجے میں ہر قوم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی قوم کی خیر خواہی کے جذبہ کے تحت مذکورہ قسم کے کام انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کے قومی کام کا داعیہ پیدا ہونے کی مزید وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس سے آدمی اپنی قوم کے اندر مقبول ہوتا ہے۔ ا س کو لیڈری ملتی ہے۔ اُس کو ہر جگہ باعزت مقام پر بٹھایا جاتا ہے۔ میڈیا میں شان دار الفاظ میں اُس کا چرچا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرہ کے اندر وہ چیز ملتی ہے جس کواسٹیٹس (status) کہا جاتا ہے۔
مگر قرآن اور سنت کے مطالعہ سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ اس قسم کا کمیونٹی ورک دنیا میں لوگوں کو خواہ کتنا ہی زیادہ اہم نظر آئے، آخرت کے اعتبار سے اُس کی کوئی قیمت نہیں۔ میرے فہم دین کے مطابق، آخرت کے اعتبار سے صرف دو چیزوں کی اہمیت ہے— ایک، اللہ سے عجز کا تعلق، اور دوسرے، اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا، جس کو میں نے دعوہ ورک کہا ہے۔
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ایک روایت آئی ہے۔اس کے مطابق، حضرت عائشہ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، عبد اللہ بن جُدعان جاہلیت کے زمانہ میں خوب صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو بہت کھانا کھلاتا تھا تو کیا اُس کا یہ عمل اُس کو آخرت میں نفع دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ، نہیں۔ اُس نے کسی دن یہ نہ کہا کہ: ربّ اغفرلی خطیئتی یوم الدین (اے میرے رب، جزا کے دن میرے گناہ کو معاف کردے) صحیح مسلم، کتاب الایمان، مسند احمد 6/93۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین کے الفاظ میں کچھ ایسے فضائل چھپے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو اپنی زبان سے بول دے تو اُس کے بعد پُر اسرار طورپر اُس کو نجات حاصل ہوجائے گی۔ یہ جملہ دراصل عجز کا کلمہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں فضیلت کا کلمہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی بے پایاں عظمت کو اس طرح دریافت کرے کہ اُس کے مقابلہ میں وہ سراپا عجز بن جائے۔ اُس کا عاجزانہ احساس اُس کے دل کی گہرائیوں سے مذکورہ دعا کی صورت میں نکلنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بندہ کی طرف سے جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ عجز ہے، وہ عجز جو داخلی معرفت کا اظہار ہو، نہ کہ محض کچھ الفاظ کی تکرار۔
دعوہ ورک سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ اور شہادت علی الناس جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حق کی پیغام رسانی کا وہی کام ہے جس کو پیغمبر نے اپنے معاصرین کے سامنے انجام دیا۔ یہ کام ہر قوم میں اور ہر نسل میں مطلوب ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اُس کو ہر زمانے میں مسلسل طورپر جاری رکھا جائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر نے اپنے زمانہ میں براہِ راست طورپر اس دعوتی کام کو انجام دیا تھا۔ اور امت مسلمہ کی بعد کی نسلیں بالواسطہ طورپر اُس کو ہر زمانہ میں انجام دیتی رہیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان باللہ آدمی کے اندر عجز کی کیفیت پیدا نہ کرے وہ ایمان ہی نہیں۔ اسی طرح جو شخص دعوت الی اللہ کا کام انجام نہ دے اُس کے بارے میں یہ امرہی مشتبہ ہے کہ وہ آخرت میں امت محمدی میں شمار ہوگا یا نہیں۔