مسلم ذہن
موجودہ مسلم ذہن (Muslim mind) کیا ہے— ایک صاحب نے سوال کیا۔ میں نے کہا کہ میرے مطالعے اور تجربے کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمان اُس ذہنیت کا شکار ہیں جس کو خطرے سے گھری ہوئی ذہنیت(besieged mentality) کہا جاتا ہے۔ یہ حالت تقریباً تمام مسلمانوں کی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کوئی شعوری طورپر اس ذہن کا شکار ہے اور کوئی غیرشعوری طورپر۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کوئی ہندو خطرے کی بات کرتا ہے اور کوئی یہودی خطرے کی اور کوئی مسیحی خطرے کی۔ کوئی امریکی خطرے کی نشان دہی کر رہا ہے اور کوئی انگریزی خطرے کی۔ اس قسم کی تمام باتیں یقینی طور پر اسلامی اسپرٹ اور اسلامی طرزِ فکر کے خلاف ہیں۔قرآن میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ نے اپنے دین کو آخری حد تک مستحکم کردیا، اس لیے اب تم لوگ انسانوں سے نہ ڈرو بلکہ اللہ سے ڈرو۔ (المائدہ: 3) اس واضح اعلان کے بعد انسانی خطرے کی بات کرنا یقینی طور پر خود اپنے ایمانی شعورکی کمی کا اعلان ہے، نہ کہ انسانی خطرے کی موجودگی کا اعلان۔
قرآن کے اس اعلان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ بطور واقعہ پیش نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع کھول دیے ہیں جو ہر مسئلے پر غالب رہیں، گویا مسئلہ اگر ایک ہو گا تو اُس کے مقابلے میں مواقع متعدد ہوں گے۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: لن یغلب عُسرٌ یُسرَین (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 525)
موجودہ زمانے میں تیسیر کا یہ معاملہ اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں اقتصادیات کا انحصار تمام تر زمین(land) پر ہوتا تھا۔ اور زمین کا مالک پورے ملک میں صرف ایک شخص ہوتا تھا، اور وہ بادشاہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں بادشاہ تو شان دار محلوں میں رہتے تھے اور عام انسان صرف معمولی مکانات میں۔