مال کی حیثیت
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک بڑے تاجر کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اللہ نے ان کو بہت نوازا ہے۔ یعنی ان کو بہت مال دیا ہے۔ میں نے کہا کہ جب کسی کے پاس زیادہ مال آجاتا ہے تو اکثر لوگ اس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں۔ مگر یہ اسلامی بات نہیں۔ کیوں کہ قرآن اور حدیث میں مال کو نوازش نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اس کو آزمائش کہا گیا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش ہیں۔ (إنما أموالکم وأولادکم فتنۃ۔ التّغابن: 15) قرآن میں کہیں بھی مال کو مطلق طورپر انعام نہیں بتایا گیا ہے۔ بلکہ اسے فتنہ اور آزمائش کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت کے معاملے میں مومن کا ذہن کیا ہونا چاہیے۔
مومن کو چاہیے کہ اس کو جب مال و دولت ملے تو اس کو وہ اس نظر سے دیکھے کہ یہ امتحان کا ایک پرچہ ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کیا ہے۔ مال کو جب آزمائش کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ وہ اس کو خدا کی بتائی ہوئی مدوں میں خرچ کرے، وہ اس کے استعمال میں سخت محتاط ہو، وہ اس اندیشے میں مبتلا ہو کہ اگر اس نے مال کو صحیح راہ میں استعمال کرنے کا ثبوت نہیں دیا تو وہ خدا کی پکڑ میں آجائے گا۔
جو آدمی مال کو نوازش سمجھ لے اس کی نفسیات بالکل مختلف ہوگی۔ وہ مال کو پاکر خوشی منائے گا۔ وہ مال کو صرف اپنی پسندیدہ راہوں میں خرچ کرے گا۔ وہ مال کو ان راہوں میں استعمال کرے گا جن سے اس کو یہ امید ہو کہ لوگوں کے درمیان اسے عزت کا مقام حاصل ہوگا۔
مال کو اگر جائز طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو جائز مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس کے برعکس اگر آدمی اپنی خواہش سے اتنا زیادہ مغلوب ہو کہ وہ نہ مال کمانے میں جائز طریقوں کی پابندی کرے اور نہ اس کو خرچ کرنے میں تو مال اس کے لیے گھاٹے کی چیز بن جائے گا۔