تعلیم سب کچھ ہے

مولانا الطاف حسین حالی۱۸۳۷ میں پیدا ہوئے، اور ۱۹۱۴ میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ سرسید احمد خاں کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کی کتاب مسدّس حالی ایک مشہور کتاب ہے۔ اپنی اِس کتاب میں جدید دور میں تعلیم کی اہمیت کو بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

بس اب وقت کا حکمِ ناطق یہی ہے     کہ دنیا میں جو کچھ ہے تعلیم ہی ہے

یہ بات آج پہلے سے بھی زیادہ درست قرار پاچکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے علم اور تعلیم کی اہمیت بے حد بنیادی ہوچکی ہے، سیکولر شعبوں میں بھی اور مذہبی شعبوں میں بھی۔

تعلیم کی اِس اہمیت کا سبب موجودہ زمانے میں سائنس اور ٹکنالوجی کا فروغ ہے۔ جدید دَور میں سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں تمام علوم کو از سرِ نو مدوَّن کیاگیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ آسمان کے ستارے اتنے ہی بڑے ہیں جتنے بڑے کہ وہ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر موجودہ زمانے میں دور بینی مطالعے نے بتایا کہ آسمان کے ستارے بہت زیادہ بڑے ہیں، اور تعداد میں بھی وہ اس سے بہت زیادہ ہیں جتنا کہ بظاہر وہ دکھائی دیتے ہیں۔ اِس طرح موجودہ زمانے میں بے شمار نئی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ نئی معلومات کی روشنی میں دنیا کو جاننے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ آج بے علم آدمی صرف ایک ناخواندہ انسان نہیں ہے، بلکہ وہ حقائق کی دنیا سے بے خبر انسان کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسی طرح ٹکنالوجی کی ترقی نے قدیم روایتی دَور کو بالکل بدل دیا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں سواری کا ذریعہ یہ تھا کہ جنگل میں خچر، گھوڑے اور اونٹ فطری طورپر بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آدمی ان کو پکڑتا اور انھیں سواری اور باربرداری کے لیے استعمال کرتا۔ مگر آج سواری، مشینی سواریوں کا نام ہوگیا ہے، اور مشینی سواریاں علم کے بغیر نہ بنائی جاسکتی ہیں، اور نہ انھیں استعمال کیا جاسکتاہے۔

قدیم زمانے میں کہاجاتا تھا کہ: العلم علمان، علم الأدیان وعلم الأبدان۔ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں، مذہب کا علم، اور علاج معالجے کا علم۔ مگر آج علم کی بے شمار نئی قسمیں وجود میں آچکی ہیں۔ ان علوم کو جانے بغیر کسی بھی شعبے میں ترقی کرنا ممکن نہیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بہت سے وہ شہر جو قدیم زمانے میں دستی صنعت کے لیے مشہور تھے، اب وہاں ایک نیا دَور آچکا ہے۔ وہاں کے جن لوگوں نے جدید تعلیم حاصل کی وہ اپنی دست کاری میں نئے ٹکنکل طریقوں کو استعمال کرکے بہت آگے بڑھ گیے،اور جو لوگ روایتی علم پر باقی رہے وہ ترقی کی نئی دَوڑ میں دوسروں سے پیچھے ہوگیے۔ یہ منظر آج بہت سے شہروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

سابق صدر امریکا، لنڈن جانسن نے کہا تھا کہ امریکا کی ترقی کے لیے تعلیم بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی معاملہ ہر گروہ کا ہے۔ جو گروہ بھی ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہے، اس کو یہ کرنا ہوگا کہ اپنی نسلوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنائے۔ کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ موجودہ زمانے میں ترقی کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے: اول تعلیم، دوم تعلیم، سوم تعلیم، اور آخر میں پھر تعلیم۔

دوسری عالمی جنگ میں جاپان پوری طرح تباہ ہوگیا تھا۔ ۱۹۴۶میں جاپان کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ جاپان کی ازسرِ نو تعمیر کے لیے کیا کرے۔ جاپان کی قیادت نے یہ فیصلہ کیا کہ انھیں اپنی نئی نسلوں کو سب سے پہلے اعلیٰ تعلیم دلانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے جاپان میں تیس سالہ تعلیمی منصوبہ بنایا گیا۔ جب یہ تیس سالہ منصوبہ پورا ہوا تو دنیانے دیکھا کہ جاپان دوبارہ ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔

تعلیم کا مقصد صرف جاب حاصل کرنا نہیں ہے۔ بلاشبہہ تعلیم کے ذریعے جاب بھی حاصل ہوتا ہے، لیکن تعلیم ایک اور چیز کے حصول کا ذریعہ ہے۔ یہ چیز جاب سے بھی زیادہ اہم ہے، اور وہ فکر و شعور کی ترقی ہے۔ تعلیم، آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ تعلیم آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے حالات کو بخوبی طورپر سمجھے، اور اپنی زندگی کی درست منصوبہ بندی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی گروہ کے لیے تعمیر وترقی کا سنگل پوائنٹ فارمولا صرف ایک ہے، اوروہ وہی چیز ہے جس کو تعلیم یا ایجوکیشن کہا جاتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom