کارٹون کا مسئلہ

شمالی یورپ کا ایک علاقہ ہے جس کو اسکینڈی نیویا کہتے ہیں۔ اِس علاقے میں چار ممالک واقع ہیں— سویڈن، ناروے، فِن لینڈ اور ڈنمارک(Denmark)۔ یہاں کی آبادی میں تقریباً 2 لاکھ مسلمان ہیں۔ اسکینڈی نیویا یورپ کا ایک پُر امن خطّہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ مگر پچھلے چند مہینوں سے وہ بَرعکس انداز میں، میڈیا میں نمایاں ہورہا ہے۔

ڈنمارک میں ڈینش(Danish) زبان لکھی اور بولی جاتی ہے۔ ایک ڈینش اخبار شیلاندس پوستین(Jyllands Posten) کے شمارہ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۶ میں ایک کارٹون چھپا۔ کارٹون، جدید صحافت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کارٹون کا مقصد نہ تعریف ہے اورنہ توہین۔ کارٹون دراصل صحافت کا ایک تفنُّن آمیز جُز(Comic item) ہے۔ چنانچہ عام طور پر لوگ کارٹون کو دیکھ کر یا تو اس سے محظوظ ہوتے ہیں یا سادہ طورپر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

تاہم ڈنمارک کے اخبار کا مذکورہ کارٹون مسلمانو ں کے لیے سخت قابلِ اعتراض ثابت ہوا۔ قصہ یہ تھا کہ اِس اخبار میں ایک مضمون کے تحت کچھ کارٹون شامل کیے گیے۔اِن میں پیغمبر اسلام کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک کارٹون میں دکھایا گیا تھاکہ پیغمبر اسلام اپنے ہاتھ میں ایک چھری لیے ہوئے ہیں اور آپ کے سر پر ایک پگڑی ہے جس کے اوپر بم رکھا ہوا ہے۔

اِس کارٹون کی خبر جب عام ہوئی تو ہر جگہ کے مسلمان اُس کو دیکھ کر یا اس کو سُن کر مشتعل ہوگیے۔ ان کے نزدیک یہ کارٹون پیغمبر اسلام کی توہین کے ہم معنیٰ تھا۔ جو کہ مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت حد تک قابلِ اعتراض ہے۔

چنانچہ ساری دنیا میں مسلمانوں نے اس کے خلاف مظاہرے شروع کردیے۔ بڑے بڑے جلوس نکالے گیے۔ ڈنمارک کے سفارت خانوں میں آتش زنی اور توڑ پھوڑ ہوئی۔ اِن پُر شور مظاہروں میں کئی افراد مارے گیے اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں یہ مظاہرے اتنے بڑھے کہ حکومتوں کے لیے ان پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ اِس کے نتیجے میں جوناخوش گوار واقعات پیش آئے ان میں سے ایک واقعہ یہ تھا کہ کئی عرب ممالک نے ڈنمارک سے اپنے سفارتی تعلقات توڑ لیے اور اس سے اپنی تجارت منقطع کردی۔

ڈنمارک،ڈیری صنعتوں کے لیے مشہور ہے۔ یہاں کی ڈیری صنعت کا تقریباً ۲۵ فیصد سامان عرب ممالک اور دیگر مسلم ممالک میں جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈنمارک کی کئی فیکٹریاں بند ہوگئیں اور بھاری تجارتی نقصان کی صورت میں ڈنمارک کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑی۔اس کے نتیجے میں ڈنمارک کو روزانہ ایک ملین ڈالر کا نقصان ہونے لگا۔

اِس معاملے میں ڈنمارک اور دوسرے مغربی ملکوں کا موقف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کے مطابق، آزادیٔ اظہار انسان کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے، اور مذکورہ کا رٹون اِسی حق کا ایک استعمال تھا۔ اِس لیے ڈنمارک کے اخبار میں مذکورہ کارٹون کی اشاعت ان کے نزدیک کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں۔ ان کے خیال کے مطابق، مسلم جذبات کے لیے وہ ایک قابلِ اعتراض چیز ہوسکتی ہے لیکن ڈنمارک کے لوگوں کے نزدیک وہ صرف اپنی آزادی کا ایک استعمال تھا، اور مُلکی قانون کے مطابق، وہ آزادی کے اِس استعمال کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔

اجتماعی معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک، یہ کہ آئیڈیل کیا ہے، اور دوسرے یہ کہ پریکٹکل طور پر کیا ممکن ہے اور کیا ممکن نہیں۔ اِس معاملے میں اہلِ ڈنمارک کا جواب آئیڈیل کے اعتبار سے بظاہر درست ہوسکتا ہے، لیکن پریکٹکل کے اعتبار سے دیکھیے تو وہ بالکل نادرست قرار پائے گا۔ آزادی کا استعمال ایک فرد اپنے کمرے میں کرے تو اُس سے کوئی اجتماعی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن جب وہ اپنی آزادی کا استعمال اجتماعی زندگی میں کرے تو یقینی طورپر مسائل پیدا ہوں گے۔ ایسی حالت میں فرد کو یہ سوچنا چاہیئے کہ کیا وہ اُن منفی نتائج کا تحمل کرسکتا ہے جو آزادی کے لامحدود استعمال کی صورت میں اس کے لیے پیدا ہوں گے۔

استعمالِ آزادی کے اِسی پہلو کو لے کر امریکا کے پروفیسر اسکنر(Skinner) نے کہا تھا کہ لامحدود آزادی کا تصور نہایت خطرناک ہے، ہم ایسی آزادی کا تحمّل نہیں کرسکتے:

We can't afford freedom.

ڈنمارک کے لوگ روایتی طورپر امن پسند لوگ ہیں، وہ مادّی خوش حالی میں یقین رکھتے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ڈنمارک کے لوگ یہ نادانی کریں گے کہ وہ اِس حد تک نظریہ پرست بن جائیں گے کہ وہ اپنی آزادی کا لامحدوداستعمال کرتے رہیں، خواہ اس کے نتیجے میں ان کے بین اقوامی تعلقات خراب ہوں، ان کی فیکٹریاں بند ہوجائیں۔ ان کو ناقابلِ تلافی حد تک تجارتی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ یقینا اب وہ اِس معاملے میں اپنی پالیسی کو بدلیں گے۔ مگر فارسی شاعر کے مطابق، آدمی ایسا کام کیوں کرے جس کا نتیجہ شرمندگی ہو:کُجا کارے کند عاقل کہ باز آیدپشیمانی

اِس معاملے میں مسلمانوں کو بھی اسلامی تعلیم کے مطابق، احتسابِ خویش (introspection) سے کام لینا چاہیے۔ مسلمانوں کو بھی اِس معاملے میں حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اِس طرح کے معاملے میں صحیح ردّ عمل کیا ہے اور نتیجہ خیز (result oriented) تدبیر کیا ہوسکتی ہے۔

اسلامی طرزفکر کے مطابق، سوچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو صرف ’’سازش‘‘ کی اصطلاح میں نہ سوچا جائے بلکہ زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ کارٹونسٹ نے جس تصور کو اپنے خاکے میں پیش کیا وہ تصور اس کو کہاں سے ملا۔ اگر غیر جذباتی انداز میں سوچا جائے تو خود مسلمان بھی اس میں یکساں طور پر شریک نظر آئیں گے۔

مثلاً کارٹونسٹ نے اپنے کارٹون میں دکھایا تھا کہ پیغمبر اسلام اپنے ہاتھ میں ایک چھُری لیے ہوئے ہیں۔ بے لاگ انداز میں غور کیجئے تو کارٹونسٹ یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو یہ تصوّر مسلم شاعر ڈاکٹر محمد اقبال سے ملا۔ اقبال نے خود اپنے ایک شعر میں پیغمبر اسلام کے ماننے والوں کی تصویر اِن الفاظ میں پیش کی ہے: ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا۔ اقبال کے اِس مصرعے کا انگریزی ترجمہ مسٹر خوشونت سنگھ نے اِن الفاظ میں کیا ہے:

To every vein of falsehood, every muslim was a knife.

اسی طرح ڈنمارک کا کارٹونسٹ یہ کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام کو ماننے والے خود یہ کررہے ہیں کہ اپنے جسم پر بم باندھ کر وہ اجتماعی مقامات پر جاتے ہیں اور دھماکہ کرکے وہاں بہت سے لوگوں کو ہلاک کردیتے ہیں۔ میں نے اپنے کارٹون میں صر ف یہ کیا تھا کہ بم کو جسم پر باندھنے کے بجائے اس کو سر کے اوپر رکھ دیا— ظاہر ہے کہ اس بات کا مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا جواب نہ ہوگاجو مذکورہ کارٹونسٹ کو مطمئن کرسکے۔

اسلام کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ مسلمان ایسا کوئی کام نہ کریں جو دوسروں کو یہ کہنے کا موقع دے کہ ہم تو وہی کررہے ہیں جس کا نمونہ ہم کو تمہاری اپنی زندگی میں ملا تھا(ایں گناہے ست کہ در شہر شما نیز کنند)۔ مسلمان اگر یہ چاہتے ہیں کہ کوئی شخص ان کی پر تشدد تصویر نہ بنائے تو خود ان کو بھی اپنے آپ کو پر تشدد اعمال سے بچاناہوگا۔ یہ ناممکن ہے کہ مسلمان ایک پر تشدد عمل کریں اور میڈیا میں جب اس کی خبر آئے تواس کے عنوان میں تشدد کے بجائے امن لکھا ہوا ہو۔

اسی طرح اسلام اور عقل دونوں کے اعتبار سے وہی عمل صحیح عمل ہے جو اپنے انجام کے اعتبار سے مثبت نتیجے کا حامل ہو۔ ایسا اقدام جو اپنے نتیجے کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو(counter-productive) ثابت ہو، وہ نہ اسلام کے اعتبار سے درست ہے اور نہ عقل کے اعتبار سے۔

اس اصول کی روشنی میں دیکھئے تو اقدام کا نتیجہ برعکس صورت میں برآمد ہوا ہے یعنی اسلام لوگوں کی نظر میں ایک ایسا مذہب بن گیا ہے جو آزادی کے خلاف ہے اور اپنے پیروؤں کو تشدد کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ یہ اسلام کی صحیح تصویر نہیں۔پیغمبر اسلام کے زمانے میں مدینہ میں ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ بن اُبی تھا۔ وہ اسلام، پیغمبر اسلام اور اہلِ بیتِ رسول کے خلاف سخت سازشوں کی بنا پر اس قابل ہوچکا تھا کہ اس کو قتل کردیا جائے مگر پیغمبر اسلام نے قصداً اس کو قتل نہیں کیا اور فرمایا کہ موجودہ حالات میں اس کا قتل اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اس اصول کی اہمیت پہلے سے بھی زیادہ ہوچکی ہے۔ کیوں کہ پہلے بدنامی کی خبر صرف زبانی طورپر پھیل سکتی تھی مگر آج ایسی خبر پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کے دور میں بجلی کی رفتار سے پھیلتی ہے۔

اس معاملے میں احتجاجات کا نتیجہ عملا صرف معکوس صورت میں برآمد ہوا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 30 ستمبر 2005کو جب یہ کارٹون ڈنمارک کے اخبار میں چھپا تو بہت تھوڑے لوگوں نے اس کو دیکھا تھا۔ مگر اس کے خلاف مسلمانوں کے پرشور احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کارٹون انٹرنٹ پر آگیا۔ اور ساری دنیا میں کروڑوں لوگ اس توہین آمیز کارٹون کو انٹرنٹ پر دیکھنے لگے۔

اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو اعراض (avoidance)کہا جاتا ہے۔ اعراض کا مطلب کسی ناپسندیدہ صورت حال میں ہَجرِ جمیل کا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ یعنی اعلیٰ ظرفی کا وہی طریقہ جس کو تمثیل کی زبان میں اس طرح بیان کیاگیا ہے:

کتے بھونکتے رہتے ہیں اور ہاتھی چلتا رہتا ہے

اس معاملے میں پیغمبر اسلام کی زندگی میں ایک انوکھا نمونہ پایا جاتا ہے۔ ابن اسحاق نے ایک روایت میں بتایا ہے کہ قدیم مکہ میں عرب کے مخالفین، پیغمبر اسلام کو مذمَّم یعنی مذمت کیا ہوا (Condemned Person) کہتے تھے۔ جب کوئی شخص آپ کے سامنے آکر آپ کو مذمم کہتا تو آپ اس کا کوئی جواب نہ دیتے بلکہ سادہ طور پر یہ فرماتے کہ ان لوگوں کو دیکھو، یہ مجھ کو مذمم بتا کر مجھ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ میرا نام تو محمد (قابلِ تعریف) ہے۔ یعنی ان کی بری باتیں اس شخص پر پڑیں گی جس کا نام مذمم ہو۔ وہ مجھ پر پڑنے والی نہیں۔ کیوں کہ میرا نام تو محمد ہے، مذمّم نہیں۔

موجودہ زمانے کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ اگر آدمی امن کے دائرے میں رہے تو وہ اپنے کسی بھی نظریے کو بلا روک ٹوک پیش کرسکتا ہے۔ البتہ تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہی اس کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر تحریک پر امن دائرے میں رہ کر چلا ئیں تاکہ کوئی شخص ان کے خلاف بولنے کا موقع نہ پاسکے، خواہ کارٹون کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ سختی کے ساتھ اپنی جدوجہد کو پر امن طریق کار کا پابند رہتے ہوئے چلائیں۔

مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس اہم اصول کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ وہ اپنی تحریکوں کو اس بین اقوامی اصول کے مطابق چلائیں۔ اس کے بعد ان کی تحریک زیادہ مؤثر ہوگی اور مزید یہ کہ اسلام اور مسلمان دونوں بدنام ہونے سے بھی بچ جائیں گے۔ (۱۷ فروری ۲۰۰۶)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom