کائنات میں انسان کا مقام

انسان اور انسان کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے اس کو مصلحین (reformers) اور مفکرین نے درست طور پر دریافت کیا۔ یہ تعلق مختصر طورپر یہ تھا— ہر انسان آزاد ہے، اس وقت تک جب تک کہ ایک انسان کی آزادی دوسرے انسان کی آزادی میں خلل ڈالنے والی نہ ہو۔ اس نظریے کو ایک کہانی میں اس طرح بیان کیا گیاہے۔

کہا جاتا ہے کہ امریکا جب یورپ کے سیاسی قبضے سے آزاد ہوا، اس وقت ایک امریکی شہری اپنے گھر سے باہر نکلا۔ وہ اپنی آزادی کا جشن منانا چاہتا تھا۔ وہ ایک سڑک پر اپنے دونوں ہاتھ ہلاتا ہوا بے فکری کے ساتھ چل رہا تھا۔ اِس اثنا میں اس کا ایک ہاتھ دوسرے مسافر کی ناک سے ٹکرا گیا۔مسافر کو غصہ آگیا۔ اس نے کہا کہ یہ کیا بیہودگی ہے۔ تم نے کیوں اپنے ہاتھ سے میری ناک پر مارا۔ امریکی شہری نے جواب دیا کہ آج امریکا آزاد ہے۔ اب میں آزاد ہوں کہ میں جو چاہوں کروں۔ مسافر نے کہا کہ میرے بھائی، تمہاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے:

My brother, your freedom ends where my nose begins.

یہ قصہ انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے اصول کو درست طورپر بیان کرتا ہے۔ مگر جہاں تک انسان اور خدا کے درمیان تعلق کی بات ہے اس کو انسان درست طورپر دریافت نہ کرسکا۔ اس طرح اس معاملے میں انسان کی دریافت صرف پچاس فیصد کے بقدر تھی۔

تاہم یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان تعلق کا اصول ہی یہ بتا رہا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان درست تعلق کا اصول کیا ہے۔ مذکورہ اصول کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اس تعلق کا اصول مختصر طورپر یہ ہے—انسان کی آزادی اس حد پر ختم ہوجاتی ہے جہاں سے خدا کی حد شروع ہوتی ہے:

Man's freedom ends where God's domain begins.

اس دنیا میں انسان کو جو چیزیں ملی ہیں وہ سب کا سب خدا کا عطیہ ہیں۔ تمام چیزیں خدا کے دینے سے انسان کو ملی ہیں۔ ٹھیک یہی معاملہ آزادی کا بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ہر عطیہ اپنے ساتھ ذمّے داری بھی لاتا ہے۔ اس عام اصول کے تحت، انسان کو ملی ہوئی آزادی بھی ایک لازمی ذمے داری کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ وہ ذمے داری یہ ہے کہ—انسان اپنی آزادی کا صرف صحیح استعمال کرے، وہ کبھی اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔

آزادی کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی اِس آزادی کو اپنا حق سمجھ لے۔ وہ یہ یقین کرلے کہ میں اس آزادی کا مالک ہوں۔ میں جس طرح چاہوں اِس آزادی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کروں۔ اپنی آزادی کو استعمال کرنے کے بارے میں مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔

اس کے مقابلے میں آزادی کا صحیح استعمال یہ ہے کہ آدمی یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اس کو جو آزادی حاصل ہے، وہ اس کو کسی کے دینے سے ملی ہے۔ اور پھر یہ معلوم کرے کہ جو آزادی کا دینے والا ہے اس کی منشا اس آزادی سے کیا ہے، اور اس کی منشا کے مطابق، مجھے اپنی آزادی کو کس طرح استعمال کرنا چاہے۔ یہی وہ دریافت ہے جو کسی آدمی کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے۔

مطالعہ بتا تا ہے کہ آزادی کا صحیح استعمال اور غلط استعمال کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔ کوئی بھی شخص اگر سنجیدہ ہے تو وہ یقینی طورپر اس کو دریافت کرسکتا ہے۔ کسی بھی حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے سنجیدگی ضروری ہے۔ اس طرح آزادی کے اِس قانون کو دریافت کرنے کے لیے بھی سنجیدگی لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔

جو آدمی اِس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ سب سے پہلے اس دریافت تک پہنچے گا کہ ہر عورت اور مرد کے اندر پیدائشی طورپر صحیح اور غلط کی ایک کسوٹی رکھی ہوئی ہے۔ ہر آدمی خود اپنے فطری شعور کے تحت یہ جان سکتا ہے کہ کون سا رویّہ صحیح ہے اور کون سار ویّہ غلط۔ فطرت کی یہ کسوٹی وہی ہے جس کو ضمیر (conscience) کہا جاتا ہے۔ اِسی کا دوسرا نام کامن سنس (common sense) بھی ہے۔

اس طرح آدمی خود اپنی فطرت کی آواز کے تحت، یہ جان سکتا ہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ہر آدمی کی فطرت گویا اس کے لیے ایک گائڈ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر آدمی کے اندرایک متنبّہ کرنے والا عنصر (warner) موجود ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ یہ عنصر کبھی غافل نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اپنی ڈیوٹی کی بجا آوری میں کوتاہی نہیں کرتا۔

اس سلسلے میں پہلی بات جو فطرت کے اس نظام کے تحت معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ انسان کے اندر پیدائشی طورپر ایک طاقت ور جذبہ موجود ہے۔ یہ اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ہے۔ ہر عورت اور مرد ذاتی طورپر اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ہر آدمی اپنے ضمیر یا کامن سنس کے ذریعے یہ جانتا ہے کہ جب بھی ایک شخص دوسرے شخص کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کرے تو دوسرے شخص کو چاہیے کہ وہ بھر پور طورپر اس کا اعتراف کرے۔ انسان کا داخلی گائڈ اعتراف کو ایک اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھتا ہے۔ انسانی فطرت کے مطابق، اعتراف مسلّمہ طورپر شرافت کا اعلیٰ وصف ہے۔ اور بے اعترافی پستی اور ذلت کی پہچان ہے۔ اعتراف کرنے والا اپنی حیثیتِ انسانی کو برقرار رہتا ہے، اور اعتراف نہ کرنے والا اپنے آپ کو انسانی درجے سے نیچے گرالیتا ہے۔

ضمیر یا کامن سنس کا یہ فیصلہ خالق کے معاملے میں بھی یکساں طورپر در ست ہے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ خود اپنی فطرت کی آواز کے تحت اپنے خالق کا اعتراف کرے۔ وہ اپنے خالق کے احسانات کو مانے۔ اس کے خالق نے اس کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، ان کو اپنے دل کی گہرائی کے ساتھ محسوس کرے اور زبان سے کھلے طورپر اس کا اعلان کرے۔ خالق کا اعتراف فطرتِ انسانی کے مطابق ہے، اور خالق کا عدم اعتراف فطرتِ انسانی سے انحراف کی حیثیت رکھتا ہے۔

اسی طرح ہر عورت اور مرد کا تجربہ ہے کہ اس کا ضمیر ایک اخلاقی کسوٹی ہے۔ جو ہر موقعے پر اس کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔ یہ ضمیر جھوٹ بولنے پر اس کو ملامت کرتا ہے اور سچ بولنے پر اس کے لیے اطمینان کا باعث بنتا ہے۔ یہ ضمیر ناانصافی کو بُرا سمجھتا ہے، اور انصاف کو ہمیشہ اچھا بتاتا ہے۔ یہ ضمیر بد دیانتی (dishonesty) پر اپنی بے زاری ظاہر کرتا ہے اور دیانت داری پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ضمیر تشدد کو غیر انسانی چیز سمجھتا ہے اور امن کو ایک اعلیٰ انسانی اصول کا درجہ دیتا ہے۔ یہ ضمیر نفرت کو پست کرداری کی حیثیت دیتا ہے، اور محبت کو اعلیٰ انسانی قدر کا درجہ عطا کرتا ہے۔ یہ ضمیر غصّے کو رد کردیتا ہے، اور معافی پر اپنی پسندیدگی کا سرٹفکٹ عطا کرتا ہے، وغیرہ۔

اسی طرح انسان جب اپنے باہر کی دنیا کو دیکھتا ہے تو وہ پاتا ہے کہ اس کے علاوہ تمام مخلوقات سختی کے ساتھ اپنے خالق کے قانون میں بندھی ہوئی ہے۔ زمین سے لے کر وسیع خلا تک، ہر چیز انتہائی ڈسپلن کے ساتھ اپنے مُفوّضہ عمل کو انجام دیتی ہے۔ کوئی چیز، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اِس ڈسپلن سے انحراف نہیں کرتی۔ زمین کے جمادات، نباتات اور حیوانات سے لے کر خلا کے ستاروں اور سیّاروں تک ہر چیز مکمل طورپر اِس آفاقی ڈسپلن میں بندھی ہوئی ہے۔

یہ ڈسپلن خالق کا قائم کیا ہوا ہے۔ یہی ڈسپلن انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بقیہ کائنات کی طرح اس کائناتی ڈسپلن کا حصہ بن جانا ہے، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی بقیہ چیزیں مجبورانہ طورپر اِس عالمی ڈسپلن میں بندھی ہوئی ہیں جب کہ انسان کو اختیارانہ طورپر اپنے آپ کو اس ڈسپلن میں شامل کرلینا ہے۔

مثلاً شمسی نظام کے تمام سیّارے (planets) سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسی طرح انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کو اپنا مرکز ومحور بنا کر اس کے گرد اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ اِس دنیا کی کوئی بھی چیز ٹھہری ہوئی نہیں ہے، بلکہ یہاں کی چیز مسلسل طورپر حرکت میں ہے۔ پوری کائنات ایک عظیم کارخانے کی مانند حرکت وعمل میں مصروف ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں نہ شور ہے اور نہ دھواں۔ یہاں کسی بھی قسم کی کوئی کثافت نظر نہیں آتی۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کا نقشہ اس طرح بنائے کہ اس کی سرگرمیاں کسی بھی قسم کی کثافت(pollution) کا سبب نہ بنیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز نفع رسانی کے اصول پر قائم ہے۔ روشن سورج سے لے کر بہتے ہوئے دریا تک، اور سر سبز درختوں سے لے کر ہواؤں کے جھونکوں تک، اور پہاڑوں سے لے کر کیڑے مکوڑوں تک، ہر چیز کوئی مفید عمل انجام دے رہی ہے۔ اس وسیع کائنات کا ہر جُز یک طرفہ طور پر دینے والا ہے نہ کہ لینے والا۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں اپنی زندگی کا نقشہ اس طرح بنائے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن جائے۔ ہرانسان سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔

اسی طرح مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان ہمیشہ انجام کو سوچ کر اپنے عمل کا نقشہ بناتا ہے۔ انسان کی سوچ ایک نتیجہ رُخی (result-oriented) سوچ ہے۔ انسان اسی عمل کو پسند کرتا ہے جس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے۔ انسان کی فطرت اِس سے اِبا کرتی ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہ ہو۔

اِس انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان وسیع تر معنوں میں اِس اصول کے مطابق اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ جس طرح وہ موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی نتیجے کو سامنے رکھ کر کرتا ہے، اسی طرح وہ موت کے بعد کے عرصۂ حیات کے لیے بھی نتیجے کو معیار بنائے۔ وہ قبل از موت اپنی زندگی کی سرگرمیوں کو اس طرح منظم کرے جو بعد از موت عرصۂ حیات میں اس کے لیے مفید ثابت ہونے والا ہو۔

جیسا کہ معلوم ہے، ہماری دنیا کا نظام آج اور کَل یا حال اور مستقبل میں بَٹا ہوا ہے۔ مگر انسان کے سوا اِس دنیا میں جو مخلوقات ہیں وہ سب کی سب آج میں عمل کرتی ہیں۔ آج یا حال کے سوا ان کے اندر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ کَل (tomorrow) کا لفظ صرف انسان کی ڈکشنری میں پایا جاتا ہے۔ دوسری مخلوقات کی ڈکشنری کل کے لفظ سے خالی ہے۔

یہ فرق گویا فطرت کا ایک اشارہ ہے۔ اس فرق کی صورت میں فطرت انسان کو بتارہی ہے کہ تم صرف آج (today) پر قناعت نہ کرو بلکہ تمہیں کل (tomorrow) کو سامنے رکھ کر اپنی سرگرمیوں کا نقشہ بنانا ہے۔ دوسری مخلوقات کی کامیابی صرف یہ ہے کہ وہ اپنے آج کو پالیں۔ مگر انسان کی کامیابی یہ ہے وہ آج کے بعد اپنے کل میں بھی کامیاب رہے۔ وہ موت کے بعد آنے والی ابدی دنیا میں اپنے لیے بہتر مقام حاصل کرلے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom